امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے آج سے 78 سال قبل 1945 میں فرمایا تھا کہ ’’خالق کا نظام مخلوق کے لیے‘‘ شاہ جیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے بہت غور کیا لیکن مجھے ’’الحمد‘‘ سے ’’والناس‘‘ تک کہیں بھی یہ نہیں ملا کہ مسلمان غیر مسلم کی رعایا بن کر کیونکر زندگی بسر کریں۔ البتہ اسلامی حکومت میں غیر مسلم کے ساتھ طرزِ عمل کا ذکر ضرور ملتا ہے، افسوس ہے کہ ایک ایسی قوم جو کرۂ ارض کی حکومت کے لیے پیدا کی گئی ہے آج سرابِ منزل میں گرفتار ہو کر سیدھی راہ بھٹک چکی ہے۔ اس قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے شاہ جی کی جد وجہد پر ایک نظر۔
آزادیٔ ہند کی تحریک میں جن انقلابی جماعتوں نے اپنے مذہب و قوم اور وطن کے لیے انگریز سامراج کا مقابلہ کیا اور جدوجہد آزادی میں لا زوال و بے مثال ایثار وقربانی اور ایمان وعزیمت کی داستانیں رقم کیں ان میں مجلس احراراسلام سر فہرست ہے، جس کی جرأت استقامت بہادری اور بے باکی کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر درج ہیں، یہ وہ وقت تھا کہ امت مسلمہ میں غلامی کے مسموم اثرات تیزی سے پھیل رہے تھے اور جاہل صوفیوں ان پڑھ عاملوں اور بد کردار گدی نشینوں کے ہتھے چڑھ کر عقل و بصیرت اور ایمان وعصمت کے گوہر آب سے محروم ہورہے تھے، ہندوآنہ رسوم ورواج توہمات وخرافات سرعت کے ساتھ پروان چڑھ رہا تھا، بزدلی، بے دینی اسلامی اخلاق وتعلیمات سے دوری مسلمانوں میں اپنے قدم جمارہی تھی، جبکہ انگریز مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں سے جذبہ جہاد کی آخری چنگاری اور رمق ختم کرنے کے لیے ایک جھوٹے نبی مرزا غلام قادیانی کو جنم دے چکا تھا، ایسے سنگین حالات کے پیش نظر اسلام کے مصدقہ اصولوں کے تحت ایک بہادر اور جری، دینی اور عوامی جماعت کی اشد ضرورت تھی، غیر مسلم جماعتوں کی شر انگیزیوں اور فرقہ ورانہ سرگرمیوں کا سد باب کرے، اسی سلسلہ میں 29 دسمبر 1929 کو دریائے راوی کے کنارے لاہور میں تحریک آزادی اور تحریک خلافت کے رہنمائوں مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولاناحبیب الرحمان لدھیانویؒ، چودھری افضل حقؒجیسے سربکف وجان باز مجاہدوں نے مجلس احرار کے نام سے ایک نئی انقلابی جماعت کے قیام کا اعلان کیا، سید عطاء اللہ شاہ بخاری قافلۂ احرار کے اوّلین سالار اور حدی خواں مقرر ہوئے۔ کفن بردوش سرخ پوش مجاہد سرخ پرچم ہاتھوں میں تھامے بغاوت کے لیے شہادت کے گیت چھیڑ کر میدان عمل میں قدم رکھنے کے لیے رواں دواں ہوئے، جبکہ مقابلہ میں انگریز سامراج اپنے تمام تر ظلم واستبداد اور قہر سامانی کے ساتھ تعذیب خانوںکے دروازے کھول دیے گئے، پھانسی کے تختوں، مشین گنوں، لاٹھی چارج، پولیس، فوج، ڈندا فورس سے لیس ان وفا شعار مجاہدوں اور جفا کش رضا کاروںکے استقبال کے لیے موجود تھا، ادھر مجلس احراراسلام کے قیام کے اگلے سال ہی قادیانی مرزا بشیر الدین نے کشمیر کے معاملات میں مداخلت کرکے کشمیر کو مرزائی اسٹیٹ بنانے کی سازش کی تو مجلس احرار اسلام نے اس گہری سازش کو ناکام بناتے ہوئے تحریک کشمیر میں قائدانہ کردار ادا کیا اور جنت نظیر وادی کے مسلمانوں کو ڈوگرہ راج کے مظالم سے نجات دلائی اور وہاں قادیانی سازش کے خطرناک نتائج سے بچایا، قادیانی سازشیں بڑھ رہی تھیں اور قادیان کو مسلمانوں کے لیے نوگو ایریا بنادیا گیا تھا، اس کے توڑ کے لیے مجلس احراراسلام نے قادیان میں سب سے پہلے اپنا دفتر قائم کر کے اس جمود کو توڑا اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی الوالعزم قیادت میں احرار کا جانثار قافلہ قادیان میں داخل ہوا 11,12,13, رجب 1353ھ، مطابق 21,22,23, اکتوبر 1934ء بروز اتوار، سوموار، منگل، قادیان میں 3روزہ احرار تبلیغ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ہندوستان کے طول و عرض سے احرار کارکنوں اور علماء کرام مشائخ عظام نے شرکت کی۔
احرار کی اس یلغار سے انگریز ی نبوت کا شیش محل چکنا چور ہوگیا، مرزائیت کی غنڈہ گردی ختم ہوئی خصوصاً قادیان کے مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت کا آغاز ہوگیا، تحریک پاکستان بڑی شد ومد سے چل رہی تھی اسی اثنا ء میں قادیانیوں نے بائونڈری کمیشن کے سامنے تقسیم ہند کا ایک علٰیحدہ فارمولہ پیش کر کے گورداس پور کو ہندوستان میں ضم کرنے اور کشمیر کی حیثیت متنازع بنانے کی سازش کی، اس سازش وتلبیس کے خلاف مجلس احرار اسلام نے پورے ہندوستان میں احتجاج کیا اور بھرپور جدوجہد کی جبکہ مسلمانوں کی جماعتوں یونینسٹ اور مسلم لیگ کی چپ نے مرزائیوں کو اس سیاسی چال چلنے کا موقع دیدیا، قیام پاکستان کے بعد مجلس احرار اسلام نے حکمت عملی اور پالیسی طے کی کہ مجلس احرار اسلام عارضی طور پر ملک کی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے گی، جبکہ مجلس احراراسلام کے شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت کو تحرک بخشنے کا فیصلہ کیا۔ 1953ء میں مرزائیوں نے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سازش کے اگلے مرحلے پر عمل کرتے ہوئے بھارت سے سازباز کرکے پاکستان کو تباہ کرنے اور اکھنڈ بھارت بنانے کی مذموم کوشش کی تو مجلس حراراسلام کے پلیٹ فارم پر پاکستان بھر کی مختلف مذہبی جماعتوں کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت پر امن طور پر چلائی گئی، جبکہ اس وقت کی حکومت نے 5 مارچ 1953ء کو لاہور میں مارشل لا لگا کر عاشقان ختم نبوت پر بڑی بے دردی سے گولیاں چلائیں، لاہور، گجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، ملتان، ساہیوال کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں شمع رسالت کے پروانے لہو میں نہا گئے، بقول شورش کاشمیریؒ
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
بظاہر اس تحریک کو کچل دیاگیا لیکن سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے فرمایا کہ میں تو زندہ نہ رہوں گا، مگر تم دیکھوگے کہ شہیدوں کا خون بے گناہی رنگ لا کر رہے گا، میں اس تحریک کی صورت میں مسلمانوں کے دلوں میں ایک ٹائم بم فٹ کرچکا ہوں جو وقت آنے پر پھٹے گا اور اس کی تباہی سے مرزائیت کو کوئی نہیں بچاسکے گا، چنانچہ 1974ء میں ایسا ہی ہوا تحریک تحفظ ختم نبوت بھر پور انداز میں چلی اور قادیانی و لاہوری مرزائیوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں بحث کے بعد غیر مسلم قرار دیدیا گیا، جبکہ 26 اپریل 1984ء کو صدر محمد ضیاء الحق مرحوم نے امتناع قادیانیت ایکٹ جاری کر کے قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے قانوناً روک دیا گیا تحریک تحفظ ختم نبوت کے تناظر میں آج بھی مجلس احراراسلام دین و سیاست کے حسین امتزاج کو لے کر چل رہی ہے، امر باالمعروف و نہی عن المنکر کے ضمن میں حکمرانوں کی جو بات درست ہو اس کی کھل عام تائید و حمایت اور جو بات غلط ہو اس کی سرعام مزمت ہمارا طرۂ امتیاز ہے، تحریک ختم نبوت کے کاذ کو مشکل ترین حالات کے باوجود بھی زندہ رکھا اور سیاسی منظر سے ہٹ جانا تو قبول کر لیا لیکن تحریک ختم نبوت پر کمپرومائز نہیں کیا،
مجلس احرار اسلام نے قادیان کی طرح پاکستان میں بھی قادیانیوں کے ایوانوں میں لرزہ برپا کیا اور 1975 میں وہاں ختم نبوت کے مرکز کے لیے جگہ حاصل کی جبکہ 27 فروری 1976 کو احرار فاتحانہ انداز کے ساتھ جانشین امیر شریعت مولانا سید ابومعاویہ ابوذر بخاری ، شیر سرحد مولانا غلام غوث ہزاروی اور فاتح ربوہ ابن امیر شریعت مولانا سید عطاء المحسن بخاری رحمہم اللہ کی قیادت وسیادت میں دار الکفر ربوہ میں داخل ہوے،
قادیان میں قائم ہونے والا شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت آج بھی حضرت خواجہ خلیل احمد خان دامت برکاتہم (مسند نشین خانقاہ سراجیہ کندیاں) کی سرپرستی میں عقیدہ ختم نبوت کی ترویج و اشاعت بالخصوص غیر مسلموں کو دعوت اسلام کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
امیر مرکزیہ سید محمد کفیل بخاری، شیخ الحدیث حضرت مولانا سیف الرحمن المہند، پروفیسر خالد شبیر احمد، عبد اللطیف خالد چیمہ، مناظر ختم نبوت مولانا محمد مغیرہ، میاں محمد اویس، ملک محمد یوسف، ڈاکٹر شاہد محمود کشمیری، نبیرہ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ ثالث بخاری، مولانا سید عطاء المنان بخاری، ڈاکٹر عمر فاروق احرار، مولانا تنویر الحسن احرار اور ڈاکٹر محمد آصف، مولانا محمد اکمل، قاری ضیاء اللہ، کی پرعزم اور بے باک قیادت میدان عمل میں آج بھی سرگرم ہے۔
آئیے اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی مبارک جدو جہد ، ملک پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدات کی حفاظت اور دین دشمن قوتوں کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے شاہ جی امیر شریعت کی جماعت مجلس احرار اسلام میں شامل ہوں۔
ترتیب : محمد عبد اللہ
🇹🇷 مجلس احرار اسلام پاکستان 🇹🇷