اصل میں ہمارے معاشرے میں اختلافِ رائے کو ذاتی دشمنی سمجھ لیا جاتا ہے۔ جب کہ دنیا کے باشعور معاشرے یہ سمجھتے ہیں کہ اختلاف رائے علم بڑھاتا ہے اور چیزوں کو بہتر کرنے کا ذریعہ ہے۔
چند بنیادی وجوہات:
سیاسی تقسیم کی شدت
ہمارے ہاں سیاست “پارٹی پرستی” بن گئی ہے۔ پارٹی یا لیڈر پر تنقید کو ذاتی حملہ لیا جاتا ہے۔ اسی لیے لوگ فوراً دوسرے کو “یوتھیا” یا “پٹواری” کہہ دیتے ہیں۔
برداشت کی کمی
ہم نے چھوٹی عمر سے ہی یہ نہیں سیکھا کہ دوسرا شخص میری طرح سوچنے پر مجبور نہیں۔ برداشت کی تربیت نہیں دی جاتی۔
سوشل میڈیا کا ماحول
سوشل میڈیا پر “جھگڑا” زیادہ لائکس اور ویوز لاتا ہے، جبکہ معقول بات نظر انداز ہو جاتی ہے۔ اس سے بحث گالی گلوچ میں بدل جاتی ہے۔
علمی کمی
دلیل دینے کے بجائے نعرے اور لیبل استعمال کرنا آسان لگتا ہے، کیونکہ زیادہ تر لوگ اپنے مؤقف کو دلیل سے ثابت کرنے کی عادت نہیں رکھتے۔
تاریخی پس منظر
ہماری سیاسی تاریخ میں مخالف کو “دشمن” سمجھنے کا رویہ رہا ہے۔ یہ وراثت میں بھی چلتا آیا ہے۔

اختلاف کو ذاتی حملہ نہ بنائیں۔
دلیل دیں، شخصیت پر حملہ نہ کریں۔
اپنی رائے کے ساتھ دوسرے کی رائے کا احترام کریں۔
“میں صحیح اور تم غلط” کے بجائے “چلو دیکھتے ہیں کون سی بات بہتر ہے” کا رویہ اپنائیں۔
محمد عبدالمتین ہاشمی
چیئرمین، مکمل پاکستان پارٹی
