Jobs  |   15 September 2024

خاندان قریش کی عظمت و فضائل: تحریر عبدالہادی قریشی

| 24 Oct 2023  
الیکشن 2024، تاریخ کا اعلان ، الیکشن اکھاڑا سج گیا
الیکشن 2024، تاریخ کا اعلان ، الیکشن اکھاڑا سج گیا

خاندان قریش کی عظمت و فضائل  تحریر: عبدالہادی قریشی، اسلام آباد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سلسلہ نسب کی تیرہویں پشت میں نضر بن کنانہ نام کے ایک بزرگ گزرے ہیں، ان کی اولاد کو ”قریش“ کہا جاتا ہے، قریش عرب کا ایک مشہور، طاقت وَر اور ذی عزت قبیلہ تھا، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم اسی قبیلے کے ایک خاندان بنو ہاشم میں سے ہیں، اس لحاظ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم قریشی بھی ہیں اور ہاشمی بھی، جیسا کہ کتابوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نسب نا مہ سے ظاہر ہے، محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان اہلِ لغت نے ”قریش“ کی وجہ تسمیہ (یہ نام پڑنے) کی مختلف وجوہات ذکر کی ہیں   بعض کہتے ہیں کہ ”قریش“ تصغیر ہے، قرش کی، جس کے معنی سمندر کے ایک طاقت ور جانور کے ہیں، جو اپنے سے چھوٹے سمندی جانوروں پر غالب رہتا ہے یا بہت بڑی مچھلی جو چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے، چوں کہ یہ قبیلہ بہادر تھا اس وجہ سے اس کا یہ نام معروف ہوا۔ قرش کے معنی جمع کرنے کے بھی ہیں، چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جدِ امجد قصی بن کلاب نے متفرق قوموں کو مکہ میں جمع کیا تھا، اس وجہ سے قریش کو قریش کہا گیا ایک قول یہ بھی ہے کہ قرش کے معنی کسب کے ہیں اور یہ لوگ تجارت پیشہ تھے اس وجہ سے قریش کہلائے۔ اسی طرح اور بھی بعض معانی لفظ قرش کے لغت میں ملتے ہیں، اور ان معانی سے قریش کی وجہ تسمیہ ظاہر ہوتی ہیحضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش سے قبل بھی عرب کے تمام قبیلوں میں خاندانِ قریش کو خاص امتیاز حاصل تھا، خانہ کعبہ جو تمام عرب کا دینی مرکز تھا اس کے متولی قریش تھے اور مکہ مکرمہ کی ریاست بھی ان ہی سے متعلق تھی۔ قبیلہ قریش کی بڑی بڑی شاخیں یہ ہیں: (1)بنو ہاشم، (2)بنو امیہ، (3)بنو نوفل، (4)بنو عبد الدار، (5)بنو اسد، (6)بنو تمیم، (7)بنو مخزوم، (8)بنو عدی، (9)بنو عبد مناف، (10) بنو سہم۔ ان کے علاوہ دیگر شاخیں بھی ہیں۔ احادیثِ مبارکہ میں قریش کے بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں: (1) حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے اسماعیل (علیہ السلام) کو منتخب کیا، اور اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بنو کنانہ کو منتخب کیا، اور کنانہ کی اولاد میں سے ”قریش“ کو منتخب کیا، اور قریش میں سے بنو ہاشم کو منتخب کیا، اور مجھے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو) بنو ہاشم میں سے منتخب کیا۔“ (رواہ الترمذی، وقال: ہذا حدیث صحیح)  (2) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”تمام لوگ خیر اور شر میں قریش کے تابع ہیں۔“ (رواہ مسلم) (3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”قریش، انصار، جہینہ، مزینہ، اسلم، غفار اور اشجع (سب قبیلوں کے نام ہیں) میرے دوست اور مدد گار ہیں، ان کا اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی مولیٰ نہیں ہے۔“ (بخاری و مسلم) (4) حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”جو قریش کو ذلیل کرنا چاہے، اللہ اسے ذلیل کرے۔“ (رواہ الترمذی) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرتِ مبارکہ پر بہت سی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں جن میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے وہیں آپ کے رشتہ داروں کی بھی تفصیل ذکر کی گئی ہے، اس لیے اس موضوع پر تفصیل کے لیے آپ سیرت کی کتابوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، عربی زبان میں اس موضوع پر مزید تفصیل ملتی ہے۔ایک کتاب حافظ شمس الدین محمد بن عبد الرحمن سخاوی رحمہ اللہ کی ہے جس کا نام ”استجلاب ارتقاء الغرف بحب أقرباء الرسول وذوی الشرف” ہے، جو دکتور خالد بن احمد الصمی بابطین کی تحقیق کے ساتھ دارالبشائر سے طبع ہوئی ہے۔ سیرت کی کتابوں میں سے عربی زبان میں محمد بن یوسف صالحی دمشقی کی کتاب ”سبل الہدی والرشاد” سیرت کے اس پہلو پر بھی بہتر انداز میں روشنی ڈالتی ہے، اس کا اردو ترجمہ بھی بازار میں دست یاب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جدِ امجد قصی ابن کلاب کی اولاد کو قریش کہا جاتا ہے۔ چونکہ قصی ابن کلاب نے اہل عرب کو ایک مرکز پر جمع کیا اس لیے وہ قریش کہلائے کیونکہ تقرش کا مطلب عربی میں جمع کرنے کے اور قصی عرب کو جمع کرنے والے تھے۔۔ تاریخ طبری کے مطابق قصی ابن کلاب وہ پہلے شخص ہیں جنہیں قریش کہا گیا۔ عبد الملک بن مروان کا کہنا ہے کہ قصی ابن کلاب سے پہلے کوئی قریش نہیں تھا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل میں ایک شخص نضر بن کنانہ تھا اس کی اولاد کو قریش اس لیے کہتے ہیں کہ قریش کے معنی ایک جگہ جمع ہونے کے ہیں یہ بنی کنانہ حرم کی خدمت کی غرض سے سب ایک جگہ رہتے تھے اس واسطے ان کا لقب قریش ہو گیا۔ اگرچہ بنی کنانہ کے اس لقب قرار پانے کی اور وجوہات بھی ہیں لیکن صاحب قاموس نے اس وجہ کو مقدم رکھا ہے۔ تاریخ بخاری مستدرک?؎ حاکم تیرے ابن مردویہ وغیرہ میں ام ہانی سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قریش کی اس میں بڑی عزت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص سورۃ لا یلاف ان کے حق میں ایسی نازل فرمائی جس میں کسی دوسرے کا ذکر نہیں ہے حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ حاصل یہ ہے جس طرح اس سورۃ میں قریش کی عزت ہے۔ قبیلہ قریش کو قریش کہنے کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آباؤاجداد میں ””فہر بن مالک ”” نامی ایک شخص گزرے ہیں ان کا لقب قریش تھا،، فہر بن مالک کو قریش اس لیے کہتے ہیں کہ قریش ایک سمندری جانور کا نام ہے جو بہت ہی طاقتور ہوتا ہے اور بقیہ جانوروں پہ غالب رہتا ہے،، چونکہ فہر بن مالک اپنی شجاعت اور خدا داد طاقت کی بناء پہ تمام عرب قبائل پہ غالب تھے اس لیے ان کو قریش کہا جاتا ہے۔ قریش کے سرداروں میں مذکورہ اسمائے گرامی ہیں   ابو طالب (بنو ہاشم) اسد بن ہاشم (بنو ہاشم) عبد المطلب بن ہاشم (بنو ہاشم)ابو لہب (بنو ہاشم) عاص ابن وائل (بنو سہم) ابو جہل (بنو مخزوم) ابو لہب (بنو ہاشم) ابو سفیان بن حرب (بنو امیہ) اخنس بن شریق (حلیف بنوعدی) اسود بن مطلب (بنو اسد) حکیم بن حزام (بنو اسد) مطعم بن عدی (بنو نوفل) مغیرہ بن عبداللہ (بنو مخزوم) نبیحہ بن حجاج (بنو جمح) نذر بن حارث (بنو عبدالدار) سہیل بن عمرو (بنو عامر) امیہ بن خلف (بنو جمح) عقبہ بن معیط (بنو عبدالدار) عتبہ بن ربیعہ (بنو عبدالشمس)  مکہ معظمہ کی تمام ذمہ داری کے عہدے انہی شاخوں میں بٹے ہوئے تھے ان عہدوں اور ان کے متعلقین کی تفصیل درج ذیل ہے:  سداتہ، یعنی کعبہ کی حفاظت اور اس کی خدمت، محافظ کعبہ ہی کے پاس کعبہ کی کنجی رہتی تھی اور وہی لوگوں کو اس کی زیارت کراتا تھا۔ یہ عہدہ بنی ہاشم کے خاندان میں تھا اور نبی عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کے زمانہ میں آپ کے دادا عبد المطلب اس عہدے پر مقرر تھے۔ سقایہ، یعنی پانی کا انتظام، مکہ معظمہ میں پانی کی قلت تھی اور موسم حج میں ہزا رہا زائرین کے جمع ہو جانے کی وجہ سے پانی کا خاص انتظام کیا جاتا تھا۔ اس کی صورت یہ تھی کہ چمڑے کے حوض بنوا کر اُنہیں صحنِ کعبہ میں رکھ دیا جاتا تھا اور اُس کے آس پاس کے پانی کے چشموں سے پانی منگوا کر اُنہیں بھر دیا جاتا تھا۔ جب تک چاہِ زمزم دوبارہ صاف نہ ہو گیا یہ دستور جاری رہا۔ سقایہ کی خدمت بنی ہاشم سے متعلق تھی۔ 3۔ رفادہ زائرین، کعبہ کی مہمانداری کے لیے قریش کے تمام خاندان ایک قسم کا چندہ ادا کرتے تھے اس چندہ سے غریب زائرین کے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا یہ خدمت پہلے بنی نوفل سے متعلق تھی پھر بنی ہاشم کے حصے میں آئی۔  عُقاب، یہ قریش کے قومی جھنڈے کا نام تھا جب لڑائی کا زمانہ ہوتا تھا تو اسے نکالا جاتا تھا اگر اتفاق رائے سے کوئی معزز شخص جھنڈا اُٹھانے کے لیے تجویز ہو گیا تب تو اسے دے دیا جاتا تھا ورنہ جھنڈے کا محافظ جو بنو امیہ کے خاندان میں سے ہوتا تھا، یہ خدمت انجام دیتا تھا۔ ندوہ، یہ مکہ کی قومی اسمبلی تھی۔ قریش مشورہ کرنے کے لیے یہیں جمع ہوتے تھے یہیں جنگ و صلح اور دوسرے بڑے بڑے معاملات کے فیصلے ہوتے تھے اور قریش کی شادیاں بھی یہیں ہوتی تھیں (ندوہ) کا انتظام بنی عبد الدار سے متعلق تھا۔ قیادہ، یعنی قافلہ کی راہنمائی، جس شخص سے یہ منصب متعلق ہوتا تھا اسے خاص معاملات میں مشورہ لیا جاتا تھا۔ قریش کسی معاملہ کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے مشیر کی رائے ضرور حاصل کر لیتے تھے۔ یہ منصب بنی اسد سے متعلق تھا۔ قبہ، جب مکہ والے لڑائی کے لیے نکلنے کا ارادہ کرتے تو ایک خیمہ نصب کیا جاتا اس خیمہ میں لڑائی کا سامان جمع کر دیا جاتا تھا۔ یہ ذمہ داری بھی قریش کے کسی خاندان سے متعلق ہوتی تھی۔  حکومہ، یعنی آپس کے لڑائی جھگڑوں کا فیصلہ کرنا،  سفارہ، یعنی ایلچی گری، جب کسی دشمن قبیلہ سے صلح کی بات چیت ہوتی تو کسی سمجھ دار آدمی کو اس کام کے لیے مقرر کیا جاتا۔ ابتدا اسلام میں قریش کے آخری سفیر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ بن خطاب تھے۔ اس تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ، قریش، عرب کا سب سے زیادہ معزز قبیلہ تھا۔ پھر قریش میں بھی بنی ہاشم کا خاندان سب سے زیادہ ممتاز تھا کیونکہ اکثر بڑے بڑے عہد انہی سے متعلق تھے۔ 1۔ سداتہ  کعبہ کی حفاظت اور اس کی خدمت  محافظ کعبہ ہی کے پاس کعبہ کی کنجی رہتی تھی اور وہی لوگوں کو اس کی زیارت کراتا تھا۔ یہ عہدہ بنی ہاشم کے خاندان میں تھا اور نبی عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کے زمانہ میں آپ کے دادا عبد المطلب اس عہدے پر مقرر تھے۔ 2۔ سقایہ،  پانی کا انتظام  مکہ معظمہ میں پانی کی قلت تھی اور موسم حج میں ہزا رہا زائرین کے جمع ہو جانے کی وجہ سے پانی کا خاص انتظام کیا جاتا تھا۔ اس کی صورت یہ تھی کہ چمڑے کے حوض بنوا کر اُنہیں صحنِ کعبہ میں رکھ دیا جاتا تھا اور اُس کے آس پاس کے پانی کے چشموں سے پانی منگوا کر اُنہیں بھر دیا جاتا تھا۔ جب تک چاہِ زمزم دوبارہ صاف نہ ہو گیا یہ دستور جاری رہا۔ سقایہ کی خدمت بنی ہاشم سے متعلق تھی۔ 3۔ رفادہ زائرین، کعبہ کی مہمانداری کعبہ کی مہمانداری کے لیے قریش کے تمام خاندان ایک قسم کا چندہ ادا کرتے تھے اس چندہ سے غریب زائرین کے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا یہ خدمت پہلے بنی نوفل سے متعلق تھی پھر بنی ہاشم کے حصے میں آئی۔ 4۔ عُقاب، قومی جھنڈا عقاب قریش کے قومی جھنڈے کا نام تھا جب لڑائی کا زمانہ ہوتا تھا تو اسے نکالا جاتا تھا اگر اتفاق رائے سے کوئی معزز شخص جھنڈا اُٹھانے کے لیے تجویز ہو گیا تب تو اسے دے دیا جاتا تھا ورنہ جھنڈے کا محافظ جو بنو امیہ کے خاندان میں سے ہوتا تھا، یہ خدمت انجام دیتا تھا۔  ندوہ قومی اسمبلی ندوہ مکہ کی قومی اسمبلی تھی۔ قریش مشورہ کرنے کے لیے یہیں جمع ہوتے تھے یہیں جنگ و صلح اور دوسرے بڑے بڑے معاملات کے فیصلے ہوتے تھے اور قریش کی شادیاں بھی یہیں ہوتی تھیں (ندوہ) کا انتظام بنی عبد الدار سے متعلق تھا۔  قیادہ،  قافلہ کی راہنمائی جس شخص سے یہ منصب متعلق ہوتا تھا اسے خاص معاملات میں مشورہ لیا جاتا تھا۔ قریش کسی معاملہ کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے مشیر کی رائے ضرور حاصل کر لیتے تھے۔ یہ منصب بنی اسد سے متعلق تھا۔ سامانِ حرب کی جگہ جب مکہ والے لڑائی کے لیے نکلنے کا ارادہ کرتے تو ایک خیمہ نصب کیا جاتا اس خیمہ میں لڑائی کا سامان جمع کر دیا جاتا تھا۔ یہ ذمہ داری بھی قریش کے کسی خاندان سے متعلق ہوتی تھی۔  حکومہ،  آپس کے لڑائی جھگڑوں کا فیصلہ کرنا  یہ منصب بنو ھاشم کے پاس تھا جب کسی دشمن قبیلہ سے صلح کی بات چیت ہوتی تو کسی سمجھ دار آدمی کو اس کام کے لیے مقرر کیا جاتا۔ ابتدا اسلام میں قریش کے آخری سفیر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ بن خطاب تھے۔ اس تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ، قریش، عرب کا سب سے زیادہ معزز قبیلہ تھا۔ پھر قریش میں بھی بنی ہاشم کا خاندان سب سے زیادہ ممتاز تھا کیونکہ اکثر بڑے بڑے عہدے انہی سے متعلق تھے۔ قرآن پاک میں ایک مکمل سورۃ قبیلہ قریش کے متعلق نازل ھوئی ہے جسے سورہ القریش کہا جاتا ھے یہ کتنی بڑی سعادت اور فضیلت ھے کہ قریش کا یہ ذکر اس سورہ کی صورت میں قرآن پاک کا حصہ ھے اور یہ قیامت تک تلاوت کی جاتی رھے گی مفہوم حدیث رسول ﷺ ہے متفق علیہ حدیث پاک ﷺ ہے کہ اللہ تب تک قیامت کو بپا نہیں کرے گا جب تک زمین پہ ایک بھی قریشی باقی ہے  لاطینی زبان میں ”Natio” جس کے معنی نسل کے ہیں انگریزی زبان میں Nation جو Natio سے مشتق ہے جس کے معنی قوم کے ہیں یعنی قوم سے مراد ایسے لوگ جن کا تعلق ایک ہی نسل سے ہو- قوم عربی زبان کا لفظ اور قبیلہ کے ہم معنی ہے برصغیر پاک و ہند میں قبیلہ کے بجائے قوم کا لفظ زیادہ مستعمل ہے- قبیلہ بنو قصیٰ کا مطلب ہے قصیٰ بن کلاب کی اولاد جنھیں برصغیر پاک و ہند میں قصائی کہا جاتا ہے لفظ قصائی قصیٰ سے بنا ہے جیسے عیسائی منسوب با عیسیٰ اور موسائی با موسیٰ اس طرح قصائی قصیٰ سے بنا ہے جیسا کہ مولوی بقا حسین موجد فلکی جنتری نے اپنی جنتری ھ میں ذکر کیا ہے اور تاریخ قدسیہ میں بھی حوالہ ملتا ہے- قصائی کا لفظ ہندوستان میں ہی مستعمل ہے ویسے ہی جیسے نٰصریٰ کیلئے عیسائی مستعمل ہے- ماہ نامہ حکمت قرآن کے دسمبر کے شمارے میں لغات و اعراب قرآن کے عنوان سے پروفیسر حافظ احمد یار صاحب سورۃ البقرہ کی آیت?? کا ترجمہ کرتے ہوئے لفظ والنٰصریٰ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار مغرب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لقب المسیح جو انگریزی میں ”Christ” ہے، کی وجہ سے Christian کہلاتے ہیں اس طرح المسیح سے عربی میں مسیح کا لفظ کرسچین کے ترجمے کے طور پر رائج ہوا عیسیٰ سے عیسائی صرف برصغیر میں رائج ہے” اسی طرح قصیٰ کی اولاد کیلئے قصائی کا لفظ صرف برصغیر پاک و ہند میں مروج ہے- قصائی اپنے مورث اعلیٰ قصیٰ بن کلاب کی نسبت کی وجہ سے قصائی کہلاتے ہیں یہ کسی طور ممکن نہیں کہ پوری کی پوری قوم ایک ہی پیشے سے وابستہ ہو- قصائی قوم قریش ہونے کی وجہ سے زیادہ تر تجارت سے وابستہ ہے جو کہ قریش ہونے کی واضح علامت ہے کوئی بھی قوم اپنے اندر پائی جانے والی نشانیوں کے ذریعے پہچانی جاتی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ کیلاش چترال میں بسنے والے لوگ یونانی النسل ہیں کچھ مورخین کا خیال ہے کہ ان کے رہن سہن، شکل و صورت اور بول چال میں واضح نشانیاں ان کے یونان سے تعلق کو ظاہر کرتی ہیں – قصائی قوم میں صدیاں گذرنے پر بھی اب تک بہت کچھ عرب کی نشانیاں موجود ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ دنیائے اسلام کے ذی ہوش اور ماہرین تاریخ کہتے ہیں کہ قصائی قوم خالص عرب النسل ہے- قصائی قوم کے لوگوں کے قوائے جسمانی، عادات و اطوار اور خصوصاً ان کی بول چال کے لب ولہجے سے ان کے نسب کا پتہ چلتا ہے عرب چونکہ آزاد قوم تھی اور زیادہ تر بدوی زندگی کی خوگر تھی جو کسی کی غلامی قبول نہیں کرتی تھی عربوں کی اس آزاد خیالی کا اثر اب تک اس قوم میں چلا آرہا ہے اہل عرب کو ایک خاص خصوصیت حاصل ہے کہ ان کا حافظہ قوی ہوتا ہے اس بنا پر اپنا نسب یاد رکھتے ہیں یہ خاصیت خاص طور پر قریش قبیلے میں اور نمایاں ہے جس کی وجہ سے قصائی قوم کے لوگ اب تک نسب کا لحاظ رکھتے ہیں نسب یاد ہونے کی وجہ سے قصائی قوم کے لوگ شادی بیاہ آپس میں کرتے ہیں قصائی قوم کے لوگ اپنے مسئلے مسائل ثالث کے ذریعے حل کرتے ہیں جو کہ عرب کی قدیم روایات میں سے ایک ہے- آج بھی جو مسلمان حج و عمرہ یا روزگار کی غرض سے عرب اور خاص طور پر مکہ جاتے ہیں وہ یقینی طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ مکہ کے لوگ نسبتا” دیگر عرب کے گرم مزاج ہوتے ہیں جو قبیلہ قریش کی ایک نمایاں پہچان ہے- قصائی قوم کے لوگ قول کے پکے ہوتے ہیں جو کہہ دیتے ہیں اس سے پھرتے نہیں ہیں اس کی مثال ان کے کاروباری لیں دین میں دیکھی جا سکتی ہے غرض کہ ان کے لباس، طرز معاشرت، عادات و اطوار اس تیز رفتار دور میں بھی کافی حد تک متاثر ہونے سے بچے ہوئے ہیں – قصائی قوم کے لوگ آپس کی گفتگو میں مخصوص الفاظ استعمال کرتے ہیں یہ الفاظ اصل میں عربی الفاظ کی بگڑی ہوئی شکل ہے- عربی میں چھری کو ”سکین” کہتے ہیں جو کہ گوشت فروشی کے پیشے میں بطور اوزار استعمال ہوتی ہے اس لئے قصائی قوم اپنے قصابوں کو ”سکو” کہتے ہیں – کاروبار اور روزمرہ کے معمولات میں استعمال ہونے والے الفاظ کی ایک جھلک درج ذیل ہے-                                 بولا جانے والا تلفظ عربی اصل لفظ اردو                                        دھلا ثلاثہ تین                                         روا ربع چار                                       کھمس خمس پانچ                                       آسر عشرہ دس                                       راس راس مال مویشی                                       قیمہ قیمہ قیمہ                                       نحرا نحر نحر                                      جمسی جاموس بھینس قصائی قوم ایک ایسی قوم ہے جن کے جگر سخت اور دل نرم ہوتے ہیں یہ لوگ کڑوے پن میں اپنا پاسنگ نہیں رکھتے اور مٹھاس میں ان کی کوئی مثال نہیں ہے جو کہ عربوں کا موروثی خاصہ ہے اور فراست ان کی گھٹی میں شامل ہے- قصائی قوم قصاب کے پیشے سے زیادہ پہچانی جاتی ہے جو کہ اس قوم کا ایک نمایاں پیشہ ہے لیکن ذی ہوش لوگ یہ باخوبی جانتے ہیں کہ زمانہ قدیم سے ہی یہ قوم تجارت کے ساتھ کاشتکاری سے بھی وابستہ رہی ہے اور عہد حاضر میں تعلیم، سیاست، قانون، طب، مالیات اور دیگر صنعتی شعبوں سے وابستہ ہے جہاں جذبہ وفاداری اور فہم و فراست سے نمایاں حیثیت رکھتی ہے- اللہ تبارک و تعالیٰ نے دیگر اقوام کو نوازا کسی قوم کو دولت سے نواز دیا کسی کو شہرت و عزت سے اللہ نے نواز دیا اللہ نے قوم قریش کے افراد کی جھولی میں علم ڈالا تا کہ قریشی آنے والی  نسلوں کی آبیاری کر سکیں عربوں میں قریش حَسب نسب مال زر کے ساتھ علم، زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے قبیلہ قریش کے لوگ رسول اللہ ﷺ سے علم دین حاصل کر کہ دوسرے لوگوں تک علم پہنچانے والے تھے لوگ آکہ قریشیوں سے شریعت سمجھتے اور علم حاصل کیا کرتے تھے  مشکوۃ شریف۔ جلد پنجم۔ قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق۔ حدیث 590 دویمنی قبیلوں کی خوبیاں اور ان کی تعریف راوی: وعن أبی عامر الأشعری قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: ” نعم الحی الأسد والأشعرون لا یفرون فی القتال ولا یغلون ہم منی وأنا منہم ”. رواہ الترمذی وقال: ہذا حدیث غریب اور حضرت ابوعامر اشعری (جو حضرت ابوموسیٰ اشعری کے چچا ہیں) بیان کرتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسد اور اشعریب ہت اچھے قبیلے ہیں، یہ دونوں نہ کفار کے مقابلہ پر جنگ سے بھاگتے ہیں اور نہ مال غنیمت میں خیانت کرتے ہیں وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔” تشریح: اسد یمن کے ایک قبیلہ کے مورث اعلی کا نام ہے اور یہ قبیلہ اسی کے نام سے مشہور ومتعارف ہوا، اسی قبیلہ کو ” ازد ” اور ” ازد شنوہ ” بھی کہا جاتا ہے تمام انصار مدینہ اسی قبیلہ سے نسلی تعلق رکھتے تھے اشعر دراصل عمرو ابن حارثہ اسدی کا لقب تھا جو اپنے زمانہ میں یمن کا ایک ممتاز اور سربر آوردہ شخص تھا یہ بھی اپنے قبیلہ کا مورث اعلی تھا اور اس کے لقب کی نسبت سے اس کا قبیلہ ” اشعری ” کہلاتا تھا اس قبیلہ کے لوگوں کو ” اشعریون ” اور اشعرون ” بھی کہا جاتا ہے، مشہور صحابی حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی قوم کے لوگ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔” وہ مجھ سے ہیں ” کا مطلب یہ تھا کہ وہ میری اتباع کرنے والے اور میری سنت اور میرے اسوہ پر چلنے والے لوگ ہیں، یا یہ کہ ان قبیلوں کے لوگ میرے دوستوں اور مدد گاروں میں سے ہیں اسی طرح ” میں ان کا ہوں ” کا مطلب یہ تھا کہ میں بھی ان کا دوست اور ان کا مدد گار ہوں گویا ان الفاظ کے ذریعہ اس طرح اشارہ کیا گیا کہ ان قبیلوں کے مؤمن ومسلمان تقوی وپرہیز گاری کے مقام پر ہیں اور یہ بات قرآن کریم کے ان الفاظ سے ثابت ہوتی ہے کہ: وان اولیاؤہ الا المتقون۔ ” اور ان کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) جو بھی دوست ورفیق ہیں سب متقی وپرہیز گار ہیں۔” ازد، ازد اللہ ہیں  اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” قبیلہ ازد کے لوگ، روئے زمین پر اللہ کے ازد (یعنی اللہ کا شکر اور اس کے دین کے معاون ومددگار) ہیں لوگ اس قبیلہ کو ذلیل وخوار کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے برخلاف اس قبیلہ کے لوگوں کو عزت وبلندی عطا کرنا چاہتے ہیں یقینا لوگوں پر وہ زمانہ آنے والا ہے جب آدمی یہ کہتا نظر آئے گا کہ کاش میرا باپ ازدی ہوتا اور کاش میری ماں قبیلہ ازد سے ہوتی ” اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔” تشریح: قبیلہ ازد کی نسبت اللہ کی طرف کرکے ان کو ازد اللہ کہنا یا تو ان کو اس لقب کے ساتھ متعارف کرانا تھا یا اس اعتبار سے کہ اس قبیلہ کے لوگ اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کے معاون ومددگار ہونے کی حیثیت سے اللہ کا لشکر تھے، ان کے فضل وشرف کو ظاہر کرنے کے لئے ان کے قبیلے کی نسبت اللہ کی طرف کی اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ازد اللہ دراصل اسد اللہ (اللہ کے شیر) کے معنی میں استعمال ہوا ہے مطلب یہ کہ قبیلہ ازد کے لوگ معرکہ شجاعت ودلاوری کے شیر ثابت ہوتے ہیں۔” ” کاش میرا باپ ازدی ہوتا ” مطلب یہ کہ ایک زمانہ میں اس قبیلہ کا مرتبہ ایسا وقیع ہوتا اور اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے باعزت وسربلند ہوں گے کہ دوسرے قبائل کے لوگ ان پر رشک کریں گے اور اس آرزو کا اظہار کرتے نظر آئیں گے کہ ہم بھی اس قبیلہ کے ہوتے۔ دشمنان اسالم کو جب یہ علم ہوا کہ آسمانی دین و آئین کی تبلیغ میں پیغمبر اکرم (ص) کی کامیابی کا اہم ترین عامل آیات الہی کی وہ معنوی کشش ہے جو لوگوں کے دلوں پر اثر کرتی ہے اور انہیں اپنا گرویدہ بنالیتی ہے، تو انہیں یہ بچگانہ تدبیر سوجھی کہ کوئی ایسی سازش کریں جس کے ذریعے لوگوں کو قرآن کی جانب متوجہ ہونے سے روک سکیں اور اس مقدس کتاب کی مقبولیت اور دلچسپی کو ختم کرسکیں _ نضر بن حارث کا شمار ان دشمنان اسالم میں ہوتا ہے جو رسول خدا (ص) کو بہت زیادہ اذیت پہنچایا کرتے تھے _اس نے ”حیرہ” کے سفر میں رستم و اسفندیار کی داستانیں سن کر یاد کرلی تھیں چنانچہ اسے قریش کی طرف سے یہ کام سونپا گیا کہ جب مسجد الحرام میں پیغمبر اکرم (ص) کا تبلیغی دستورالعمل ختم ہوجایا کرے تو وہ آنحضرت (ص) کی جگہ پر جا کر بیٹھے اور لوگوں کو رستم اور اسفندیار کی داستانیں سنائے شاید اس طریقے سے پیغمبر اکرم (ص) کے مرتبے کو کم کیاجاسکے اور آپ (ص) کی تبلیغ نیز آیات الہی کو بے قدر وقیمت بنایاجاسکے، وہ بڑی ہی گستاخی اور دیدہ دلیری سے کہتا: لوگو تم میری طرف آؤ میں تمہیں محمد(ص) سے کہیں بہتر قصے اور کہانیاں سناؤں گا_ اس نے اسی پرہی اکتفا نہیں کیا بلکہ گستاخی اور بے باکی میں اس سے بھی کہیں آگے بڑھ گیا اور اپنے خدا ہونے کا دعوی کردیاوہ لوگوں سے کہتا کہ میں بھی جلد ہی وہ چیز اتاروں گا جو محمد (ص) کا خدا اس پر نازل کیا کرتا ہے_ موجودہ زمانہ کی کیفیت اور حالت کے برعکس، گزشتہ زمانہ کے واقعات و حادثات اور انسانوں کی حاالت اور کیفیات کا علم_ اس میں سوانح عمری ‘ فتح نامے اور سیرت کی وہ تمام کتابیں شامل ہیں جو اقوام عالم میں لکھی گئی ہیں اور اب بھی لکھی جارہی ہیں _ :2 علمی تاریخ ان آداب و رسوم کا علم جن کا رواج عہد ماضی کے انسانوں میں تھا اور یہ علم، ماضی میں رونما ہونے والے واقعات و منقول تاریخ کا درجہ اعتبار علمی نیز منقول تاریخ کی تشکیل چونکہ ان واقعات کی بنیاد پر ہوتی ہے جو عہد ماضی میں گزر چکے ہیں اس لئے محققین نے اس بات پر بھی بحث کی ہے کہ یہ واقعات کس حد تک معتبر یا غیر معتبر ہوسکتے ہیں _ بعض محققین کی رائے یہ ہے کہ متقدمین کی کتابوں میں منقول تاریخ سے متعلق جو کچھ درج کیا گیا ہے اسے بیان اور قلمبند کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے واقعات کو ذاتی اغراض، شخصی محرکات، قومی تعصبات یا اجتماعی و فکری وابستگی کی بنیاد پر نقل کیا ہے اور اس میں تصرف اور تحریف کرکے واقعات کو ایسی شکل دی ہے جیسی وہ خود چاہتے تھے یا صرف ان واقعات کوقلمبند کیا ہے جس سے ان کے اغراض و مقاصد پورے ہوتے تھے اور ان کے عقائد کے ساتھ میل کھاتے تھے_ منقول تاریخ کے بارے میں یہ بدگمانی اگر چہ بے سبب و بالوجہ نہیں اور اس کا سرچشمہ تاریخ کی کتابوں اور مورخین  کے ذاتی مزاج اور اسلوب کو قراردیا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود تاریخ بھی دیگر علوم کی طرح سلسلہ وار مسلمہ حقائق و واقعات پر مبنی ایک علم ہے جن کا تجزیہ و تحلیل کیا جاسکتا ہے_ اس کے عالوہ ایک محقق، شواہد و قرائن کی بنیاد پر اسی طرح اپنی اجتہادی قوت کے ذریعے بعض حادثات و واقعات کی صحت و سقم معلوم کرکے انہی معلومات کی بنیاد پر بعض نتائج اخذ کرسکتا ہے _  تاریخ بالخصوص تاریخ اسالم کی اہمیت اور قدر وقیمت مسلم وغیر مسلم محققین اور دانشوروں نے تاریخ بالخصوص تاریخ اسالم وسیرت النبی)ص(کے بارے میں بہت زیادہ تحقیقات کی ہیں _ انہوں نے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے کر اس کی قدر وقیمت اور اہمیت کو بیان کیا ہے_ الف: قرآن کی نظر میں تاریخ کی اہمیت قرآن کی رو سے ‘ تاریخ بھی حصول علم و دانش اور انسانوں کے لئے غور وفکر کے دیگر ذرائع کی طرح ایک ذریعہ ہے قرآن نے جہاں انسانوں کو غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے وہاں اس نے غورو فکر کے منابع)یعنی ایسے موضوعات جن کے بارے میں انسانوں کو غورو فکرکرکے ان سے ذریعہ شناخت و معرفت کے عنوان سے فائدہ اٹھائے(بھی ان کے سامنے پیش کئے ہیں _ قرآن نے اکثر آیات میں انسانوں کو یہ دعوت دی ہے کہ وہ گزشتہ اقوام کی زندگی کا مطالعہ کریں _ان کی زندگی کے سودمند نکات پیش کرنے کے بعد انہیں یہ دعوت دی ہے کہ وہ الئق اور باصالحیت افراد کو اپنا ہادی و رہنما بنائیں اور ان کی زندگی کو اپنے لئے نمونہ سمجھیں _ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے:   ”تم لوگوں کیلئے ابراہیم)ع(اور ان کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ موجود ہے اسی طرح رسول اکرم صلی? علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں قرآن فرماتا ہے درحقیقت تم لوگوں کے لئے رسول)ص(کی ذات ایک بہترین نمونہ ہے_” قرآن کی رو سے تاریخ بشر اور اس کا ارتقاء سلسلہ وار اصول وضوابط اور رسوم و رواج کی بنیاد پر مبنی ہے _ عزت و ذلت فتح و شکست اور بدبختی و خوش بختی سب کے سب دقیق و منظم حساب و کتاب کے تحت حاصل ہوتی ہیں ان اصول و ضوابط اورروسوم و رواج کو سمجھنے کے بعد تاریخ پر تسلط حاصل کرکے اس کے ذریعے اپنی ذات اور معاشرے کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے_ مثال کے طور پر درج ذیل آیت میں خداوند تعالی فرماتا ہے:    ”تم سے پہلے بھی رسوم و رواج اورطور طریقے موجود تھے پس زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ)خدا اور انبیاء)ع کو جھٹالنے والوں کا کیا انجام ہوا؟ ب: نہج البالغہ کی روسے تاریخ کی اہمیت قرآن کے عالوہ آئمہ طاہرین علیہم السلام نے بھی اپنے اقوال میں شناخت و معرفت کے اس عظیم اور وسیع سرچشمے کی قدر و قیمت کی جانب اشارہ فرمایا ہے چنانچہ اس بارے میں حضرت علی علیہ السالم نہج البالغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:   ”یعنی اے میرے بیٹے میری عمر اگر چہ اتنی لمبی نہیں جتنی گزشتہ دور کے لوگوں کی رہی ہے)یعنی آپ)ع(یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ گرچہ میں نے گذشتہ لوگوں کے ساتھ زندگی نہیں گزاری(لیکن میں نے ان کے کاموں کو دیکھا،ان کے واقعات پر غور کیا اور ان کے آثار اور باقیات میں سیر و جستجو کی یہاں تک کہ میں بھی ان میں سے ایک ہوگیا بلکہ ان کے  جو اعمال و افعال مجھ تک پہنچے ان سے مجھے یوں لگتا ہے کہ گویا میں نے ان کے ساتھ اول تا آخر زندگی بسر کی ہے پس ان کے کردار کی پاکیزگی و خوبی کو برائی اور تیرگی سے اور نفع کو نقصان سے علیحدہ کر کے پہچانا امیرالمومنین حضرت علی علیہ السالم کا یہ بیان اس امر کی وضاحت کرتا ہے کہ آئمہ علیہم السالم کس حد تک عہد گزشتہ کی تاریخ کو اہمیت دیتے تھے _ ج: غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں تاریخ اسالم کی اہمیت عیسائی دانشور اور ادیب جرجی زیدان رقم طراز ہے کہ: اس میں شک نہیں کہ تاریخ اسالم کا شمار دنیا کی اہم ترین تاریخونمیں ہوتا ہے_کیونکہ مذکورہ تاریخ قرون وسطی (2)مینپوری دنیا کی تاریخ تمدن پر محیط ہے (12)_ یایوں کہنا بہتر ہوگا کہ تاریخ اسالم زنجیرکی وہ ک?ی ہے جس نے دنیائے قدیم کی تاریخ کو جدید تاریخ سے متصل کیا ہے یہ تاریخ اسالم ہی ہے جس سے جدید تمدن کا آغاز اور قدیم تمدن کا اختتام ہوتا ہے_ دیگر تواریخ پر تاریخ اسالم کی برتری تاریخ اسالم کو دوسری تمام اقوام کی تاریخوں پر بہت زیادہ فوقیت اور برتری حاصل ہے _ ہم اس کے بعض پہلوؤں کی طرف یہاں اشارہ کرتے ہیں _ _1 سیرت: پیغمبر اکرم صلی? علیہ و آلہ و سلم و ائمہ معصومین علیہم السالم کی سیرت،کرداراور طرز زندگی سنت کی حیثیت رکھتی ہے اور ان کے اقوال کی طرح اسے بھی امت مسلمہ کے لئے حجت اور سند کا درجہ حاصل ہے_ سیرت نبوی)ص(ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہمارے اخالق و کردار کونبی)ص(کی سیرت اور راہ وروش کے مطابق ہونا چاہئے جبکہ دیگر تاریخ میں ایسا بالکل نہیں ہے_ مثال کے طور جرمنی کے فرمانروا ہٹلر اور دوسری عالمی جنگ کے دوران اس کا کردار ہمارے لئے حجت و سند نہینبن سکتے ان کافائدہ صرف علمی سطح پر ہی ہوسکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اس کی زندگی سے عبرت حاصل کریں _ _2دقت: تاریخ کے جتنے بھی منابع وماخذ موجود ہیں ان میں معلومات کے لحاظ سے تاریخ اسالم سب سے زیادہ ماالمال ہے چنانچہ جب کوئی محقق تاریخ اسالم لکھنا چا ہے تو اسے دقیق تاریخی واقعات وافر مقدار میں مل جائیں گے_ اس کے عالوہ تاریخ اسالم میں جس قدر مستند، باریک اور روشن نکات موجود ہیں وہ دیگرتاریخونمیں نظر نہیں آتے_ اسکی وجہ یہ ہے کہ مسلمان رسول خدا)ص(کی سنت اور سیرت کو حجت تسلیم کرتے ہیں اور وہ اسے محفوظ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے_ تاریخ اسلام کے بارے میں استاد مطہری رقم طراز ہیں: پیغمبر اسالم صلی? علیہ و آلہ و سلم کو دیگر ادیان و مذاہب پر جو دوسری فضیلت و فوقیت حاصل ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اسالم)ص(کی تاریخ بہت زیادہ واضح اور مستند ہے _ اس اعتبار سے دنیا کے دیگر راہنما ہماری برابری نہیں کرسکتے_ چنانچہ پیغمبر اکرم صلی? علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کی ایسی یقینی اور مسلم دقیق باتیں اور ان کی جزئیات ہمارے پاس آج بھی اسی طرح موجود و محفوظ ہیں جو کسی اور کے بارے میں نہیں ملتیں _ آپ)ص(کا سال والدت، ماہ والدت، ہفتہ والدت یہاں تک کہ روز والدت تک تاریخ کے سینے میں درج ہے دوران شیر خوارگی، وہ زمانہ جو آپ)ص( نے صحرامیں بسر کیا ‘ آپ)ص(کے بچپن اور نوجوانی کا زمانہ، ملک عرب سے باہر آپ)ص(کے سفر، وہ مشاغل جو آپ)ص(نے نبوت سے پہلے انجام دیئے آپ)ص(نے کس سال شادی کی اور اس وقت آپ)ص(کا سن مبارک کیا تھا آپ)ص(کی ازواج کے بطن سے کتنے بچوں کی والدت ہوئی اور جو بچے آپ)ص(کی رحلت سے قبل اس دنیا سے کوچ کرگئے تھے اور وفات کے وقت ان کی کیا عمریں تھی،نیز عہد رسالت تک پہنچنے تک   کے اکثر واقعات ہمیں بخوبی معلوم ہیں اور کتب تاریخ مینمحفوظ ہیں _اوراس کے بعد تویہی واقعات دقیق تر ہوجاتے ہیں کیونکہ اعالن رسالت جیسا عظیم واقعہ رونما ہوتا ہے _ یہاں وہ پہال شخص کون تھا جو مسلمان ہوا اس کے بعد دوسرا کون مشرف بااسالم ہوا، تیسرا شخص جو ایمان الیا کون تھا؟ فالں شخص کس عمر میں اور کب ایمان الیا_ دوسرے لوگوں سے آپ)ص(کی کیا گفتگو ہوئی، کس نے کیا کارنامے انجام دیئیحاالت کیا تھے اور کیا راہ و روش اختیار کی سب کے سب دقیق طور پر روشن و عیاں ہیں (9) _3 سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پیغمبر اکرم)ص(کی تاریخ زمانہ ”وحی” کے دوران متحقق ہوئی _ تیئیس سالہ عہد نبوت کا ہر واقعہ وحی الہی کے نور سے منور ہوا اور اسی کے ذریعہ اس کا تجزیہ اور تحلیل کیا گیا_ قرآن مجید میں عہد نبوت کے دوران پیش آنے والے بہت سارے مسائل وواقعات کا تذکرہ ہوا ہے جس واقعہ کو قرآن نے بیان کیا ہے اور خداوند عالم الغیب والشہادۃ نے اسکا تجزیہ و تحلیل کیا ہے،وہ تجزیہ تاریخی واقعات کے بارے میں بال شبہ مستند ترین و دقیق ترین نظریہ اور تجزیہ ہے_ اگر ہم واقعات کے بارے میں غورو فکر کریں تو اس نظریئے اور تجزیئے کی روشنی میں ہم دیگر تمام واقعات کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں اور ان سے نتائج اخذ کرکے دوسرے واقعات کا بھی اسالمی و قرآنی طرز تحلیل معلوم کرسکتے ہیں _ عہد رسالت کی تاریخ خود ذات گرامی پیغمبر اکرم صلی? علیہ و آلہ و سلم کی طرح انسانیت کیلئے بہترین مثال اور نمونہ عمل ہے _ چنانچہ تاریخ انسانیت کیلئے بھی یہی تاریخ بہترین نمونہ و مثال ثابت ہوسکتی ہے اور تاریخی رسوم و رواج کے لئے ہم اسے سودمندترین اور ماالمامل ترین ماخذ کے طور پر بروئے کار السکتے ہیں _ حوالہ جات مالحظہ ہو:القاموس المحیط لفط” ارخ_” _2 تاریخ سیاسی معاصر ایران، ج 1، ص _7 _4علمی اورمنقول تاریخ میں فرق یہ ہے کہ علمی تاریخ صرف کلی اور عقلی ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ تاریخ مرتب ہی منقول تاریخ کی بنیاد پر ہوتی ہے) یعنی علمی تاریخ میں منقول تاریخ بھی شامل ہوتی ہے _ مترجم(جب مورخ اس نوعیت کی تاریخ لکھتا ہے تو وہ یہ بھی دریافت کرنا چاہتا ہے کہ تاریخی واقعات کی ماہیت اور طبیعت نیز ایک دوسرے کے ساتھ ان کا ربط اور تاریخ سازی میں ان کا کیا کردار رہا ہے تاکہ اصول علت و معلول کے تحت وہ ایسے عام قواعد و ضوابط مرتب کرسکے جن کا اطالق عہد ماضی و حال دونوں پر ہوسکے اس بناپر اس علم کا موضوع ہر چند عہد گزشتہ کے واقعات ہیں مگر اس سے مورخ ایسے مسائل اور قواعد و ضوابط استخراج کرتا ہے جن کا تعلق فقط عہد ماضی سے نہیں ہوتابلکہ ان کا اطالق زمانہ حال و مستقبل پر بھی ہوسکتا ہے جامعہ وتاریخ نامی کتاب کے صفحہ 352 کا خالصہ_ _5مالحظہ ہو جامعہ وتاریخ ص _351 352 مطبوعہ دفتر انتشارات اسالمی _ اس مفہوم میں علم تاریخ درحقیقت کسی معاشرے کے ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ مینارتقاء کا علم ہے کسی خاص مرحلے میں ان کی بود و باش اور ان کے حاالت کا علم نہیں _ دوسرے لفظوں میں یہ صرف گذشتہ واقعات کا ہی نہیں بلکہ معاشروں میں تبدیلیوں کا علم ہے_ اس بناپر فلسفہ تاریخ کے موضوعات کے ”   تاریخی” ہونے کا معیار صرف یہ نہینکہ ان کا تعلق گذشتہ زمانے سے ہے بلکہ یہ ان سلسلہ وار واقعات کا علم ہے جن کا آغاز ماضی میں ہوا اور ان کا سلسلہ ابھی تک بھی جاری و ساری ہے_ _6شہید مطہری کی کتاب جامعہ و تاریخ سے اقتباس_ _7سورہ ممتحنہ آیت 4 _8احزاب 21 _9سیرہ نبوی)ص(ص 5 و 6 طبع انتشارات اسالمی تہران)ایران(  آل عمران آیت 137 _ نہج البالغہ مکتوب

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *