Jobs  |   19 September 2024

آمدہ عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقبل، آصف علی زرداری سیاست کا بے تاج بادشاہ تحریر: عبدالہادی قریشی

| 15 Dec 2023  
الیکشن 2024، تاریخ کا اعلان ، الیکشن اکھاڑا سج گیا
الیکشن 2024، تاریخ کا اعلان ، الیکشن اکھاڑا سج گیا

آمدہ عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقبل، آصف علی زرداری سیاست کا بے تاج بادشاہ
تحریر: عبدالہادی قریشی

عام انتخابات کی آمد پاکستان میں قریب سے قریب تر ہے تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کو جیسے تیسے جیتنے کے لیئے زور آزمائی کر رہی ہیں تحریک لبیک والے ہوں یا سراج الحق کی سیاسی جماعت ہو جماعت اسلامی پاکستان مسلم لیگ ن کا ذکر کیا جائے جو کہ سابقہ حکمران جماعت رہ چکی ہے یا تذکرہ کیا جائے نئی ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت ملک شہیر حیدر سیالوی کی جو کہ پاکستان نظریاتی پارٹی ہے پورے پاکستان میں سیاسی جماعتیں عام انتخابات کو جیتنے کے لیئے زور آزمائی کر رہی ہیں سیاست دانوں کے چہرے عوام میں نظر آنا شروع ہو رہے ہیں سیاسی رہنما اب شادیوں، نماز جنازہ، فاتحہ خوانی اور جلسوں، جلوسوں اور عوام سے براہ راست تعلق رکھنے والے خوشی غمی کے معاملات میں شرکت کو یقینی بنارہے ہیں جہاں تمام سیاسی جماعتیں یہ کوشش کر رہی ہیں کہ ہم جیت جائیں عوامی خدمت کا موقع ہمیں مل جائے وہی
سربراہ اوّل شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کی سیاسی جماعت الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد بھی خاموش ہیں میری نظر میں آصف علی زرداری اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ابھی سارے سیاسی معاملات کو سمجھ رہے ہیں اور جاننے کی کوشش کر رہے ہیں آصف علی زرداری سابق صدر پاکستان کو اگر سیاست کا بے تاج بادشاہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا آصف علی زرداری ایک منجے ہوئے تجربہ کار جہاں سیاست دان ہیں وہاں وہ سیاست کے پیج و خم اور تمام گُروں سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں آصف علی زرداری پاکستان کی تاریخ کے وہ سیاست دان ہیں وہ اپنے تجربے، مہارت اور دوستانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سیاست میں ذرا دور سیاسی دوستوں کو قریب اور قریب والے سیاسی احباب کو مزید قریب سے قریب تر اور مخالفین دشمنوں کو لمحے بھر میں اپنا بنانے کی صلاحیت و خوبی رکھتے ہیں بظاہر لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی اکثریت ہو گی عام انتخابات میں مگر سیاسی حوالے سے کھیل تبدیل کرنا پاسہ پلٹا اور سیاست کا آخری پتہ پھینکنا آصف علی زرداری سابق صدر پاکستان اور بلاول بھٹو سابق وزیر خارجہ و چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کے والد گرامی کو معلوم ہے آصف زرداری کی سیاسی دور اندیشی کا اندازہ ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ جب طاہر القادری کے دھرنے 2013یا 2014میں اسلام آباد میں جاری تھے اور طاہر القادری نے لانگ مارچ کی کال نواز شریف کی حکومت کے خلاف دی تھی تو ایک خاص شخصیت کو جو کہ اس وقت ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک ہیں بہت بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اُن کو بطور نمائندہ بھیجا تھا زرداری نے تا کہ دھرنا اسلام آباد شاہراہ دستور سے ختم ہو اور قادری صاحب لانگ مارچ لاہور تا اسلام آباد نہ کریں آصف علی زرداری سیاسی حالات کا پہلے مشاہدہ کرتے اور اچھی طرح سمجھتے ہیں وہ عام سیاست دانوں کی طرح فضول قسم کے بیانات دینے اور سیاست میں دوسروں کی عزتیں اچھالنے سے دور ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی عام عوام سے ڈھکی چھپی نہیں رہی بلاول بھٹو زرداری کے نانا محترم شہید ذوالفقار علی بھٹو بہت بڑے سیاست دان اور بہترین عوامی لیڈر گزرے ہیں پرانے بزرگوں کی روایات کہتی ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو جب تقریر کرتے جب ذوالفقار علی بھٹو کا جلسہ ہوتا تو ملک پاکستان کے چپے چپے کونے کونے اور قریے قریے سے لوگوں کا جم غفیر اُن کی تقریر کو اور اُن کی ایک جھلک کو دیکھنے کے لیئے اُمڈ آتا بھٹو صاحب سے عام عوام کے سیاسی و نظریاتی لاکھ اختلافات ہوں مگر اُنھوں نے خود بھی اور اپنی نسل اور اپنے رشتے داروں کو عوامی خدمت کے جذبے سے لبریز ہوکر دلیرانہ، بہادرانہ اور بہت حکمت سے سیاست کرنا سیکھائی ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ خاندانی اعتبار سے شہادتوں سے بھری پڑی ہے میں کچھ دینے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے جلسے غوری ٹاؤن اسلام آباد میں گیا
جہاں ایک عالمی و ملکی شہرت کے حامل ماہر قانون دان ملک عمر اعوان ایڈووکیٹ نے تقریر کی عمر اعوان ایڈووکیٹ پاکستان پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکن و رہنما ہیں اُنھوں نے فلسطین کے معاملے پر تقریر میں کہا کہ ہماری منزل و میرا فلسطین کے مسئلے کو لیکر مقصد شہادت ہے میں حیران ہوتا ہوں کہ
پاکستان پیپلز پارٹی میں ایسے رہنما موجود ہیں جو شہادتوں کو منزل مقصود ظالم کے خلاف اور مظلوم کے حق و حمایت میں سمجھتے و جانتے ہیں
عام انتخابات میں ضروری نہیں کہ وفاق میں سُو فیصد حکومت پاکستان مسلم لیگ ن ہی کی ہو اور یہ ضروری نہیں کہ تمام امید واران صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ہی جیتیں اگر عام انتخابات ہوتے ہیں اور انتخابات میں سیاسی حوالے سے شفافیت، صفائی ستھرائی اور بدعنوانی سے پاک انتخابات ہوتے ہیں تو اصل مقابلہ و ٹاکرا پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن میں ہو گا کیونکہ عمران خان سابق وزیر اعظم کی حکومت کو گرانے کے لیئے چودہ سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر ایک صفحے پر جمع ہو گئی تھیں اب معاملہ ان سب کے برعکس ہے متفقہ حوالے سے انتخابات میں کوئی
نہیں آئے گا بلکہ چودہ جماعتوں میں تین چار زیادہ سے زیادہ اگر چاہیں وہ دوسری بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ الحاق کر لیں گی جیسے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ فنکشنل اور عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد کی جماعت مل سکتی ہے اور متحدہ قومی موومنٹ والے بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ بات چیت کر کے سیاسی حوالے سے الحاق کر سکتے ہیں یہ صرف میرا ذاتی تجزیہ ہے مزید اگر بات کی جائے تو متحدہ قومی موومنٹ ایم کیو ایم کراچی کا پاکستان پیپلز پارٹی سے الیکشن میں الحاق کرنے کا فائدہ ہو گا کہ پاک سر زمین پارٹی والے بھی پیپلز پارٹی کی طرف آ سکتے ہیں کیوں کہ مصطفی کمال کی حمایتیں متحدہ قومی موومنٹ کی طرف ہیں وہ الگ بات ہے کہ پاک سر زمین پارٹی جو کہ کراچی میں ہے ان کے بندے کارکنان رہنما تھوڑے ہیں
مگر پاک سر زمین پارٹی تب آ سکتی ہے جب ایم کیو ایم پاکستان پیپلز پارٹی سے مضبوطی سے الحاق کرے اس طرح سندھ کے تمام علاقوں اور شہر کراچی میں پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور پاک سر زمین پارٹی کے ممبران قومی اسمبلی اور رکن صوبائی اسمبلی سندھ منتخب ہو سکتے ہیں جیت کے
کراچی کی بات کریں تو جماعت اسلامی متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد بڑی جماعت کے جن کے اچھے بھلے ووٹ ہیں ماضی پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ اپنا خود کا منشور عوام تک پہنچایا ہے اُنھوں نے کسی نے اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لیئے الحاق نہیں کیا البتہ سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی اور اسی طرح پنجاب سے پاکستان مسلم لیگ ن جیت سکتی ہے باقی صوبوں گلگت بلتستان، پختون خواہ کی بات کی جائے تو یہاں تحریک لبیک پاکستان، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن اور جماعت اسلامی ان کا پلڑا بھاری رہے گا
علامہ خادم حسین رضوی نے جس طرح ناموس رسول ﷺ کے لیئے کوششیں کی ہیں اب تحریک لبیک والے بھی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی انفرادی ووٹیں کاٹیں گے مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام پشاور، چارسدہ، صوابی اور پختون خواہ کے علاوہ سے آگے نکل سکتی ہے اگر جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک کے درمیان الیکشن کا تجزیہ پیش کیا جائے تو امید واروں کے جیتنے والی فہرست میں علامہ سعد حسین رضوی کی جماعت تحریک لبیک پاکستان آگے آ سکتی ہے دوسرے نمبر پہ پختون خواہ اور پختونوں کے علاقوں سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کیونکہ مولانا فضل الرحمان کا پلڑا پشاور و پختون خواہ میں تحریک انصاف کے بعد بھاری رہا ہے مولانا نے انصار الاسلام فوج میں بندے بھی پختون شامل کر رکھے ہیں زیادہ تر مزید جماعت اسلامی تیسرے نمبر پر رہ سکتی ہے جماعت اسلامی پنجاب اور سندھ میں سے ان دو صوبوں سے ایک دو سیٹس لے سکتی ہے مگر تحریک لبیک پاکستان و پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدواران جو بھی ہوئے عام انتخابات میں سخت ٹاکرا
پنجاب میں ہو گا تحریک لبیک والوں کو مداراس کے علمائے کرام کی اور خاص کر مسلمانوں کے دین اسلام میں مسلک بریلوی کے مذہبی پیشواؤں اور مداراس کے اساتذہ، طالب علموں، مساجد کے قاری صاحبان اور دین اسلام کی جانب رجحان رکھنے والوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ جماعت اسلامی و جمعیت علمائے اسلام (ف) کو بھی مسلمانوں کے مسلک اہلسنت و دیوبند کی حمایت مکمل حاصل ہے مگر بڑا مقابلہ کانٹے دار مقابلہ
پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی میں ہو گا باقی جماعتیں صوبوں سے نشستیں لے سکیں گی اور صوبائی حیثیت اور قومی اسمبلی کی رکنیت لے سکیں گی مگر اکثریت پاکستان پیپلز پارٹی و پاکستان مسلم لیگ ن ہی کی رہے گے پھر آخر میں یہی کہوں گا کہ آصف علی زرداری کو سیاست میں
گیم چینجر اور سیاست کے بے تاج بادشاہ کا مقام حاصل ہے جو بالکل آخری نتائج کے مرحلے پر حالات و واقعات یکسر تبدیل کر نے کی سیاسی خدا داد صلاحیت رکھتے ہیں انتخابات 2024میں جب بھی ہوں مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں دوستی نہیں دیکھنے کو مل سکے گی کیونکہ ن لیگ و پیپلز پارٹی اور چودہ جماعتیں جو تحریک عدم اعتماد عمران خان کے وقت ایک محاذ پر تھے ایک انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف انتخابی مہم کریں گے مگر وہ سیاسی جماعتیں اپنی زبانیں قابو میں رکھیں گی جنھوں نے پیپلز پارٹی یا ن لیگ سے الحاق کیا ہو الحاق صرف دو جماعتوں سے کیا جا سکتا ہے ن لیگ یا پیپلز پارٹی اب دیکھتے ہیں الیکشن کا اُونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کیسے ہوتا ہے سیاسی منظر نامہ مگر آصف علی زرداری پتا پھینک کر حالات بدل سکتے ہیں

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *