Jobs  |   19 September 2024

ہمارا مستقبل

| 21 Jan 2024  

کسی بھی معاشرے کی ترقی کا انحصار جہاں اسکے نظام تعلیم پر ہوتا ہے وہیں مستقبل کے معماروں کو میسر سہولیات معاشرے میں رہنے والوں کی ترجیحات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس بات سے کوئی بھی منحرف نہیں ہو سکتا کہ آج کا بچہ کل کا نوجوان ہے اور ملکی ترقی کی بھاگ دوڑ بالآخر اسے ہی سنبھالنا ہے دوسرے الفاظ میں طالبعلم ملکی ترقی و سلامتی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر کیا ہم اس درمیانی ہڈی کو اتنا مضبوط بنا رہے ہیں کہ وہ کل پورے جسم کا بوجھ اٹھا سکے؟
اگر ہم تعلیمی میدان میں درپیش مسائل کو وقتی طور پس پشت ڈالتے ہوئے پہلے فقط سکول تک پہنچنے کے عمل پہ ہی بات کر لیں تو نہایت شرمناک حالات کا سامنا ہے۔ جنوری کی ہڈیاں جمانے والی سردی میں سہانے مستقبل کے خوابوں سے خود گرم رکھے یہ دیہاتی بچے جب گھروں سے نکلتے ہیں تو دھند کی چادر تندرستی کے سورج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ٹھٹھرتے ہاتھوں سے امید کے جگنو جیسا بستہ سنبھالے یہ متوالے ایسے چلتے ہیں جیسے کوئی سرپھرا خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کی ٹھان کے گھر سے نکلا ہو۔ بس سٹاپ تک پہنچتے پہنچتے یہ جگنو دھند میں اپنی روشنی کھونے لگتے ہیں۔
بسوں کے انتظار میں سڑک کنارے کھڑے یہ ستارے کیا کیا نہیں سہتے؟ ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی جھاڑ، موسم کے تھپیڑے، اور استادوں کی تکرار۔ بہت سارے بچوں کو تو بس میں چڑھنے تک کی اجازت تک نہیں ملتی اور جنکو اجازت ملتی ہے انہیں سیٹ تو نصیب نہیں ہوتی، ہاں مگر گالیاں، تنقیدی نظریں، غصے اور تحقیری کلمات ضرور ملتے ہیں۔
کبھی سوچا ہے بدتمیزی، جھڑک اور احترام انسانیت سے ماوری جو سلوک آج ہم ان بچوں کے ساتھ کرتے ہیں کل کو یہ سود سمیت ہمیں وصول بھی کرنا ہے؟ آج کا بویا کل کاٹنے میں کہیں مشکل تو نہیں ہوگی، ہماری آنکھیں تو باہر نہیں آئیں گی، ہمارے حلق تو خشک نہیں ہوں گے؟
وہ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ “پیڑ بوئے ببول کے تو آم کہاں سے کھائے” ہم آج جو بیج بو رہے ہیں ہمیں کل اسی کا پھل ملنا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سارے ڈرائیور ایک سے ہیں کچھ ہیں جو اپنی سواری کے دروازے خندہ پیشانی سے اپنے آنے والے کل کے لیے کھول دیتے ہیں مگر انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
بحیثیت قوم ہمیں سوچنا ہو گا اور مل کر ان مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ حکومت نے اگر ہر بس کے لیے طلبہ کی تعداد مقرر کر رکھی ہے تو آخر کونسے بس مالکان یا ڈرائیور جو اس قانون کی پاسداری نہیں کرتے اور کیوں؟ اپنا جائز حق نہ ملنے پر طلبہ کی جانب سے ہونے والے حملے، ڈرائیورز اور طلبہ کی لڑائیاں، گالم گلوچ، اور مار دھاڑ جیسے عوامل کے پیچھے کی وجوہات کیا ہیں اور انکو کس طرح سے کم کرتے ہوئے ایک اچھے اخلاقی دور کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ملکی معیشت کے تمام شعبے چاہے وہ زراعت ہو یا صنعت و تجارت انہی طلبہ نے سنبھالنے ہیں اور ہم لوگ افراط زر و تفریط زر جیسے عوامل کو برداشت کر سکتے ہیں، بلکہ معیشت میں ہونے والے تمام اتار چڑھاؤ کو سہنے کے متحمل ہو سکتے ہیں کیونکہ بہتر تعلیم اور اعلی اخلاق سے ان میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مگر ایک بار اخلاقی تنزلی کا شکار ہو گئے تو اس میں بہتری ممکن نہیں رہتی۔ یہ ایسی دلدل ہے جس سے نکلنے کی ہر اگلی کوشش پہلے سے زیادہ غرق کرتی جاتی ہے۔ تو کوشش کیجیے کہ ہر انسان خاص کر وہ طلبہ جو سفر کی کوفت کو مشعل راہ کیے چلتے ہیں انکو انکے حصے کی عزت دیکر ایک زمہ دار ملکی باشندہ بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ کیونکہ اسی کی بدولت ہمارے بچے جو ہمارا قومی سرمایہ ہیں تباہی سے بچ سکتے ہیں۔
مصباح چوہدری

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *