Jobs  |   19 September 2024

صنف:مضمون عنوان: *منفی سوچ اور ناکامی* مصنّفہ: *_طاہرہ حسین_*

| 27 Dec 2023  

اس دنیا میں ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جو یہ چاہتا ہو کہ ناکامی اس کا مقدر بنے۔مگر کامیاب ہونے کے لیے سب سے پہلے ہماری سوچ کا کامیابی کے راستے پر گامزن ہونا بھی ضروری ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ سوچ کو کیسے کامیاب کیا جا سکتا ہے ؟
جس طرح مثبت سوچ اور کامیابی لازم و ملزوم ہے اسی طرح ناکامی اور منفی سوچ لازم وملزوم ہے۔منفی سوچ اور ناکامی ایک دوسرے کے ڈائریکٹلی پروپورشنل ہوتے ہیں۔مطلب ناکام وہی ہوتا ہے جو منفی سوچ کا مالک ہوتا ہے اور منفی سوچ ناکامی کوہی جنم لیتی ہے۔
مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللّہ علیہ نے فرمایا :” تمہاری اصل ہستی تمہاری سوچ ہے باقی تو صرف ہڈیاں اور خالی گوشت ہے۔”
اس قول سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری زندگی کا دارومدار مکمل طور پر ہماری سوچ پر ہے۔اور بے شک یہی حقیقت ہے۔ یوں ہمارے سوال کا یہ جواب ہے کہ مثبت اور پراُمید سوچ ہی کسی بھی انسان کو کامیاب کرنے کی طاقت رکھتی ہے ۔اسکے برعکس منفی سوچ اور نا امیدی کسی بھی شخص کو ناکامی کے گھڑے میں دھکیل دیتی ہے ۔ اللّہ تعالیٰ کی پاک ذات پر یقین رکھتے ہوئے منفی سوچ کو دور بھگانا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔
آخر یہ منفی سوچ کیسے ذہن میں داخل ہو جاتی ہے ؟
انسان پر جب برُا وقت آتا ہے تو وہ پریشان ہوتا ہے اور اپنی پریشانی کو دور کرنے کے لیے وہ سوچتا ہے اب کیا کِیا جائے ؟ اگر وہ یہ سوچ ذہن میں بٹھا لےکہ اب کچھ نہیں ہو سکتا تو پھر اسے ناکامی کا سامنا ہی کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس نے خود مایوس ہو کر منفی سوچوں کو اپنے ذہن میں داخل کیا ہوتا ہے۔اور یہ منفی سوچیں مکمل طور پر اسکے ذہن پر غالب آ کر اس کو ناکام ہی کر کے چھوڑتی ہیں۔ اس کے برعکس اگر وہ برُے وقت میں اللّہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کے ساتھ ساتھ اپنے اچھے وقت کے لیے پرامید رہتا ہے اور مایوس نہیں ہوتا کیونکہ اسلام میں مایوسی گناہ ہے۔ تو وہی کامیاب و کامران ہوتا ہے۔ کامیابی بھی پھر اسی کے ہی قدم چومتی ہے۔
منفی سوچ کسی بھی شخص کو کسی بھی وقت جکڑ سکتی ہے۔ منفی سوچ کا آنا ایک عام سی بات ہے ۔ہر انسان کسی بھی پہلو کے متعلق مثبت اور منفی دونوں طرح سے سوچتا ہے ۔مگر جب منفی سوچ ہر وقت کسی شخص کو گھیرے رکھے اور اس کے ذہن پر سوار رہے، تب یہ منفی سوچ پریشانی کا باعث بنتی ہے اور اس انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو برباد کر دیتی ہے ۔
ہر انسان پر ایسا وقت آ سکتا ہے جس میں منفی سوچ اس کے ذہن پر غالب آ جائے۔کیونکہ بُرے حالات کسی بھی انسان کو منفی سوچنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ایک حد سے زیادہ منفی سوچوں کو جگہ دینا کسی بھی طرح ہمارے لیے بہتر نہیں ہے یہ ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ہماری آخرت بھی خراب کرتی ہے۔مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اپنی پریشانی کے لمحات میں اللہ تعالی سے رجوع کرنا چاہیے۔جبکہ ہم نے اپنی پریشانیوں کو اپنے اوپر سوار کر لیا ہے۔ایک تو ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی پورا دن سوچ کے پریشان ہوتے ہیں اور دوسری طرف ہم گناہ کا ارتکاب بھی ہوتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات کے مطابق ہم جیسا سوچتے ہیں ہماری شخصیت بھی ویسی ہی بن جاتی ہے۔منفی سوچنے والے خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ڈپریشن، انزائٹی، بائی پولر ڈس آرڈر اور اس کے علاوہ مختلف نفسیاتی بیماریاں بندے کو
جکڑ لیتی ہیں۔
ناشکرا پن منفی سوچ کی سب سے بڑی وجہ ہے۔اسلام ہمیں نعمتوں کا شکر گزار بننے کا حکم دیتا ہے۔مگر ہم اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے جو نعمتیں دوسروں کے پاس ہیں ان کے لیے ترستے رہتے ہیں اور دوسروں سے حسد کرنے لگتے ہیں۔اور یوں ہم یہی سوچنے میں لگے رہتے ہیں کہ کیسے ہم دوسروں کی چیزوں کو حاصل کر لیں بجائے اس کے کہ ہم اپنی نعمتوں کا شکر ادا کر لیں۔اس طرح منفی سوچ اس بندے کو ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے بدحال کر دیتی ہے۔
حد سے زیادہ سوچنا (انگلش میں جسے اور تھنکنگ کہا جاتا ہے) بھی انسان کو منفی سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔بندہ سوچ سوچ کر اپنے آپ کو ذہنی طور پر بیمار کر لیتا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے ۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے آپ کو مصروف رکھا جائے تاکہ ہم مایوسیوں اور منفی سوچوں سے دور رہیں۔
ماہرین کے مطابق ہماری روزمرہ کی غذا ہ ذہنی اور جسمانی صحت دونوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔متوازن غذا ہی انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر مضبوط اور طاقتور رکھتی ہے ۔
خود کو منفی سوچوں سےدور رکھنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ روزمرّہ کی عادات میں ورزش کو شامل کر لیں۔کیونکہ ماہرین کے مطابق ورزش سے آپ اپنی جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت کو بھی تندرست و توانا رکھ سکتے ہیں۔
خود کو اچھے مشاغل میں مصروف رکھا جائے تاکہ ہمیں منفی سوچوں کو دماغ میں بٹھانے کا فارغ وقت میسر نہ ہو۔
زیادہ سوچنے کی عادت کو کم کیا جائے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم خود کو دوسرے کاموں میں مصروف رکھیں گے۔
کالے چشمے سے زندگی کے ہر زاویے کو دیکھنے کے بجائے اللّہ تعالٰی کی ذات پر یقین رکھتے ہوئے امید کا دامن تھامے رکھیں۔جو بھی مصیبت اور پریشانی آتی ہے وہ اللّہ تعالیٰ کی طرف سے ہی آتی ہے۔ اس لیے جیسے بھی حالات ہوں اسی سے مدد مانگی جائے اور دنیا و آخرت دونوں میں اسی سے مدد کے طلبگار رہیں ۔اس طرح ہمیں کامیاب ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔اور اللّہ تعالیٰ کی مدد سے کامیابی ہی ہمارے قدم چومے گی ۔ انشاءللّہ تعالیٰ

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *