رضیہ یہ سن کر مسکرا دی اور بلال بھی اپنے سیکشن کیطرف گیا اور فورا کام میں مگن ہو گیا۔
رضیہ بھی چائے پینے لگی کہ گل خان پلیٹ میں بسکٹ بھی لے آیا اور بولا بی بی ساتھ یہ بھی کھاو صدر بازار سے تازہ تازہ کل خریدے تھے کہ آج دفتر لے جاؤنگا رضیہ بولی گل خان اسکے پیسے تم مجھ سے بریک میں لے لینا
کوئی بات نہیں بی بی یہ اتنی بھی بڑی بات نہیں
پروین بولی کیوں نہیں گل خان آخر تم بال بچے دار ہو بیوی ہے چار بچے ہیں انکا بھی تو خرچ ہے نا اور اوپر سے سرکاری تنخواہ بھی کم ہے اور ہزار ضروریات ہوتی ہیں
گل خان بولا ارے نہیں بی بی بیوی اور اماں تو گاوں میں ہیں البتہ بچے یہاں پشاور میں کچی آبادی میں ایک جھونپڑی کرائے پے لی ہے وہاں رہتے ہیں کیونکہ بچوں کو سرکاری سکول میں داخل کروایا ہے جبکہ دو چھوٹے گھر پر ہوتے ہیں چاروں واپسی پر میرا انتظار کرتے ہیں
اسی دوران سلیم فرید الدین صاحب بھی آگئے جو دفتر میں سب سے سینئر تھے
اسلام علیکم کیسے ہے سب ؟ ٹھیک ٹھاک
سب بولے وعلیکم اسلام سر ہم سب خیریت سے ہیں الحمدللہ
فرید الدین صاحب بولے اختر اختر آئے ہو یا نہیں اختر دوسرے سیکشن سے آئے اور بولے فرید صاحب جی میں تو کب کا آیا ہوں مگر آپ لوگ ہے جو دیر سے آتے ہیں دفتر اور پھر بھی اختر ہی گنہگار ٹہرا
اچھا جلدی جاو زیادہ باتیں مت کرو ایک تو تم باتیں بہت کرتے ہو یہ سن کر اختر چلا گیا
گل خان نے چائے کا کپ فرید الدین صاحب کے ٹیبل پر رکھا اور بولا فرید صاحب سلام آج تو بڑی تیز بارش ہے آپ خیریت سے پہنچ گئے یہ بڑی بات ہے
فرید صاحب بولے دیکھو تو ذرا ایک کام کا بولا تھا اختر کو مگر ابھی تک نہیں آیا ایک تو نیم کریلا اوپر سے نک چڑا بھی ہے یہ باتیں ہو رہی تھی کہ بینک کے ایک اور ملازم صدیقی صاحب بھی آگئے اور پروین کے میز پر پڑی رجسٹر پر دستخط کرنے لگے اور کہا میم پروین آج تو موسم بھی خوشگوار ہے کیا خیال ہے پارٹی نا کریں
پروین بولی صدیقی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرید الدین صاحب نے اختر کو ڈانٹا اختر جلدی سے رجسٹر لے آو آج بہت کام ہے اور سب آج ہی کرنا ہے اختر رجسٹر لے آیا تو فرید الدین صاحب نے پوچھا ہاں یاد آیا اختر ابھی تک رحمان صاحب نہیں آئے
ہاں ابھی تک نہیں آئے کل کیا کہا تھا یاد ہے نا کہ سب کل دفتر 8 بجے حاضر ہو نا ایک سکینڈ لیٹ نا آگے اور آج دیکھو خود ابھی تک نہیں آئے
اچھا زیادہ باتیں بنانے کی ضرورت نہیں جاو اپنا کام کرو بہت زیادہ بولتے ہو
اسلام علیکم محبوب چاچا کیسے ہو؟
بلکل ٹھیک فٹ فاٹ گیٹ سیٹ ریڈی یہ بول کر سلیوٹ مارا رحمان صاحب آگے فرید الدین صاحب کے سیکشن میں گئے اور پوچھا ہاں بھئی فرید صاحب میں بلکل ٹھیک وقت پر پہنچا ہوں یا نہیں؟
بلکل سر آپ آٹھ بجے ہی پہنچے ہے خوشامدید
فرید صاحب آج مجھے تمام کام مکمل اور وقت پر چاہئے 1 بجے سے پہلے پہلے تاکہ فائیلزز کو گل خان فورا سٹیٹ بینک پشاور میں جمع کروا دیں یاد رہے پورے صوبے میں ہماری رپورٹ پہلے پہنچنی چائیے
فرید الدین صاحب نے کہا سر آپ فکر نا کریں آج تمام کام وقت پر ہوگا اور تمام فائلیں 12 بجے آپکی ٹیبل پر ہوگی ان شااللہ
پھر رحمان صاحب صدیقی کے پاس گئے اور پوچھا ہاں بھئی کیا حال ہے وقت پر کام ختم ہو جائے گا نا؟ آج یا نہیں
صدیقی نے جواب دیا بلکل سر فکر نا کریں
اسکے بعد رحمان صاحب عبداللہ اور بلال کے پاس گئے اور پوچھا ہاں بھئی کیا حال ہے ٹھیک ٹھاک ہو نا آج مجھے وقت پر کام مکمل چاہئے
بالکل سر بارہ بجے آپکے ٹیبل پر فائل ہوگی ہم صبح سے ہی آڈٹ اور کام پر لگے ہوئے ہیں
رحمان صاحب پروین اور رضیہ کے سیکشن میں آتے ہے اور کہتے ہے ہاں بھئی مسز فراز کیسی طبعیت ہے؟
بالکل ٹھیک ٹھاک سر
ایک دم فریش اور چست
ویل ڈن مسز فراز آج تو کام وقت پر ختم ہو جائے گا نا؟
بالکل سر فکر نا کریں آج تو ویسے بھی کلوزنگ ہے اس لئے آدھا کام تو کل ہی ہم نے مکمل کر دیا تھا جو تھوڑا بہت ہے وہ ابھی کر لینگے
رحمان صاحب نے گل خان کیطرف دیکھا
گل خان بولا فکر نا کرو صاحب جی پورے تین بجے میں سائیکل پر سٹیٹ بینک پہنچ کر فائلیں جمع کروا دونگا ہمیشہ کیطرح پورے صوبے میں ہماری رپورٹ پہلے جمع ہو گی
سب سے ملنے کے بعد رحمان صاحب اپنے کیبن میں چلے گئے جہاں سامنے کی دیوار پر قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر لگی ہوئی تھی اور میز پر بینک کی فائلیں اور رحمان صاحب کا بریف کیس پڑا ہوا تھا
اِن بھیگی بھیگی آنکھوں سے ہم چُپکے چُپکے بولیں گے
سب بھُولے بھالے رازوں کو ہم دھیرے دھیرے کھولیں گے
پھر ٹِپ ٹِپ آنسو ٹپکیں گے اور رِم جھم بارش برسے گی
اِس دل کی کہانی کہنے کو ہر دھڑکن دھڑکن ترسے گی
پھر گلشن گلشن گونجے گی آواز مِری فریاد مِری
کانٹوں میں چھپےُ گا غم تیرا، پھولوں میں مہکتی یاد تِری
پھر پنچھی بَن بَن جائیں گے اور میرے گیت سنائیں گے
جو بھول گیا ہے وعدے تُو، پھر تجھ کو یاد دلائیں گے
پروین یہ گیت گنگنا رہی تھی کہ رضیہ بولی یہ گیت تو غالبا نوید رزاق بٹ کا ہے نا؟
جی جی بالکل
مگر آج تو موسم بھی عاشقانہ ہے اور موڈ بھی ہے
مجھے تو فراز کی فکر ہے وہ آج دفتر سے گھر پر پہنچے گا بھی یا نہیں بارش مسلسل تیز ہورہی ہے اور رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی
ہاں پروین سچی مجھے بھی بی اماں کی فکر ہے پتہ ہے نا انکی ٹانگیں سردی میں کام نہیں کرتی جب تک میں دوائی نا دو اور ہیٹر نا لگاو
یہ تو ہے
اسی دوران فون کی بیل بجتی ہے پروین فون اٹھاتی ہے تو رحمان صاحب کہتے ہے مسز فراز مس رضیہ کو فورا آفس بھیجو
یہ سن کر رضیہ اندر جاتی ہے تو وہاں رحمان صاحب اور فرید الدین صاحب اور ایک آدمی بیٹھے ہوتے ہے اور رحمان صاحب بولتے ہے مس رضیہ یہ فارم ہے اسکو فل کریں اور فورا چیک بک تیار کرکے لے آئیں
اور ہاں اس سے ملو یہ ہے چشتی صاحب ہمارے بینک میں اکاؤنٹ کھولا ہوا ہے
ہاں سر میں انکو جانتی ہوں
کیسی ہو مس رضیہ چشتی صاحب بولے
اللہ کا شکر ہے
رضیہ چیک بک بنا کر لے آئی اور ٹیبل پر رکھ کر واپس چلی گئی چشتی صاحب نے چیک بک کوٹ کی جیب میں ڈالا اور کھڑے ہوگئے
گل خان نے چائے کے کپ بھی میز سے اٹھا لئے رحمان صاحب بولے ہاں بھئ چشتی صاحب تھوڑا رک جائیں فرید الدین صاحب بھی مسکرانے لگے تو چشتی صاحب نے کہا نہیں نہیں موسم بھی خراب ہے اور بارش بھی تیز ہے اور سڑکیں پانی سے بھری ہوئی ہے میں جلد جانا چاہتا ہوں کیونکہ واپسی پر میں نے کئی خراب گاڑیاں دیکھی جو بارش کے پانی میں کھڑی تھی اورخراب ہو چکی تھی اچھا میں چلتا ہوں خداحافظ
کیا حال ہے بارش کا محبوب بھائی
یہ کیا بارش ہے چشتی صاحب یہ تو کچھ بھی نہیں
اور چشتی صاحب جواب دئیے بغیر چلے گئے
فرید الدین صاحب کی آواز آئی اختر اختر بارش تیز ہو رہی ہے بینک کا دروازہ بند کر دو ایسا نا ہو باہر کا سارا پانی اندر نا آ جائیں اور ساری قالینوں کو خراب کر دیں تو اختر بولا اندر کچھ پرانے کاغذات اور ٹاٹ پڑے ہیں وہ لا کر دروازہ نیچے سے بند کر دونگا
جو بھی کرنا ہے جلدی کرو پانی اندر آجائے گا
محبوب بھی دروازہ بند کرنے لگا مگر نا ہوسکا تو اندر سے گل خان بھی مدد کے لئے آیا اور سب نے زور لگا کر دروازہ بند کر دیا دروازہ لوہے کا تھا اس لئے زیادہ زور لگا کر بند ہوا گل خان سوچوں میں گم تھا اور چوکیدار محبوب چاچا بول رہا تھا جوان یہ بارش بڑی خطرناک بارش لگ رہی ہے
کیا بارش ہے
گل خان تم کن سوچوں میں گم ہو؟
کچھ نہیں کچھ نہیں محبوب بھائی میں کیچن میں سٹاف کے لئے چائے بنا کر لاتا ہو اور یہ کہہ کر گل خان چلا گیا
فرید الدین صاحب صدیقی کے ٹیبل پر گئے اور پوچھا ہاں بھئی صدیقی کام مکمل ہوا یا نہیں؟
جی سر مکمل ہے یہ لیں فائل
اور فائل لے کرفرید الدین صاحب بینک منیجر رحمان صاحب کے آفس میں چلے گئے
آفس میں فون کی بیل بجی تو فرید الدین صاحب نے اٹھایا تو فورا کہا سر گھر کیطرف سے فون ہے
رحمان صاحب نے فون اٹھایا اور بولا ہاں سلمی بولو کیوں فون کیا
کیا آواز نہیں آرہی تیز بولو
کیا کہا دعوت کس چیز کی دعوت
اچھا پکوان کی دعوت بھابھی کی جانب سے اچھا ٹھیک ہے تم لوگ ٹیکسی کرکے چلے جاو بچوں کو بھی لے جاو اور جب پہنچ جاو مجھے فون کر دینا میں دفتر سے سیدھا وہاں آجاونگا
ابو ابو آپ جلدی آجانا باہر بارش بھی تیز ہے اچھا ہم جارہے ہیں
اوکے بیٹا خداحافظ
یہ باتیں سن کر گل خان سوچوں میں گم تھا کہ وہ بھی صبح اپنے بچوں کو جھونپڑی میں اکیلے چھوڑ آیا تھا نجانے بارش میں کیا کر رہے ہونگے انکی ماں تو گاوں میں رہتی ہے گل خان انہیں سوچوں میں تھا
بادل مسلسل گرج رہے تھے اور منہ زور بارش ہو رہی تھی اور رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی تمام سڑکیں پشاور صدر تک ڈوب چکی تھی اور سارا نظام درہم برھم تھا شہر کا اس بارش کے زور اور زبردستی کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے یہ آج پورے پشاور کو بہا کر لے جائے گا
خوشامدید محترمہ اچانک محبوب چاچا نے سیلوٹ مارا اور ایک نسوانی آواز ابھری کیا بینک کھلا ہے ابھی ؟ باہر بڑی زور کی بارش برس رہی ہے ڈرائیور تم واپس جاو
گل خان نے کہا جی بی بی بینک کھلا ہے آپ صدیقی صاحب کے کاونٹر پر جائیں اور وہاں سے چیک کیش کروائیں
وہ خاتون ایک دلفریب چال کیساتھ ناز و ادا دیکھاتے ہوئے صدیقی صاحب کے کاونٹر کیطرف موڑ گئی
خاتون نے سرخ رنگ کی بڑی پھول دار ساڑھی زیب تن کی تھی جس کے بارڈر پر گولڈن ستارے جھڑے ہوئے تھے اور رنگ گہرا سنہری تھا اور ریشمی نارنجی تنگ بلاوز پہنا ہوا تھا
اس خاتون نے مسکرا کر صدیقی صاحب سے کہا میں بیگم ارشاد ہوں یہ 500 روپے کا چیک ہے اس کو مہربانی کرکے کیش کروائیں مجھے ذرا جلدی ہے باہر میری گاڑی دو مرتبہ خراب ہو چکی ہے اور مجھے حیات آباد اپنے بنگلے پر جلد پہنچنا ہے
اختر نے دیکھا کہ خاتون نے ہاتھوں میں سونے کی بارہ چوڑیاں پہنی ہے اور ہاتھ میں سونے کے بریسلٹ اور اسکے کپڑوں سے مہنگے فرفیوم کی مہک آرہی تھی جو بہت ہی بھلی محسوس ہو رہی تھی صدیقی صاحب نے نقد نئے نئے سو روپے کے پانچ نوٹ براون لفافے میں ڈال کر اس خاتون کو دئے
بیگم ارشاد ایک دم پلٹی آور آنکھوں سے اشارہ کیا اختر سیدھا تیر کیطرح اسکی طرف گیا تو بیگم ارشاد نے پرس سے دس روپے کا نوٹ نکالا اور اختر کو دیا اور مسکرا کر بینک سے چلی گئی
فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی بینک سیکرٹری فرید الدین صاحب جب بھی فون ریسور اٹھاتے کال کٹ جاتی شاید بارش کی وجہ سے ٹیلی فون لائینیں بھی کام نہیں کر رہی تھی کبھی فون ڈیڈ ہو جاتا کبھی خودبخود ٹھیک ہو جاتا یہ مسئلہ چل رہا تھا۔
فرید الدین صاحب عبداللہ کے پاس گئے اور پوچھا ہاں میاں کام مکمل ہوا یا نہیں؟
عبداللہ بولے سر ابھی تھوڑا باقی ہے
یہ سن کر فرید الدین صاحب واپس منیجر رحمان صاحب کے آفس میں چلے گئے
وہاں گل خان آفس کی الماری میں فائلیں ترتیب سے رکھ رہے تھے رحمان صاحب نے کہا
گل خان جاو میرے اور فرید صاحب کے لئے دو کپ گرم گرم دودھ پتی چائے بنا کے لاو
گل خان فورا چلے گئے اور اختر کو مدد کے لئے بلایا کہ تم ٹرے سجاو
چائے پینے کے بعد فرید الدین سے رحمان صاحب نے کہا کہ پورے ایک بج چکے ہے اب بینک کا دروازہ بند کردو اور کاونٹنگ کرکے کام مکمل کرکے دو
محبوب چاچا پہلے سے ہی بینک کا دروازہ بند کر چکے تھے کہ اچانک زور زور سے دروازے پر دستک ہوئی کہ دروازہ کھولو جلدی کرو بڑی تیز بارش ہے مجھے اندر آنا ہے
فرید الدین صاحب نے محبوب چاچا سے کہا کہ دروازہ کھولو باہر آفریدی صاحب کھڑے ہے
اختر نے زور لگا کے لوہے کا مضبوط دروازہ کھولا تو آفریدی صاحب اپنی کیپ اور کوٹ کو جھاڑتے ہوئے کہا بڑی سخت بارش ہے تقریبا پورا پشاور پانی میں ڈوبا ہوا ہے
فرید الدین صاحب نے کہا آفریدی صاحب اس خراب موسم میں آپ کیا کر رہے ہے؟
ایسی بھی کیا ایمرجنسی ؟
آفریدی صاحب نے کہا فرید الدین بھائی میرا یہ چیک 1000 روپے کا کیش کروائیں تو فرید الدین صاحب نے کہا
میں معذرت چاہتا ہوں آفریدی صاحب ابھی ایک بج چکا ہے اور بینک بند ہو چکا ہے میں اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔
جاری ہے