0092-313-5000-734    
Jobs  |   10 Aug 2025

گزشتہ دن بلوچستان میں پسند کی شادی کرنے کے گناہ میں قتل پر ،کالم ،

| 24 Jul 2025  

“ہم سب کالے ہیں”

“کیا گولی مارنے والا پاکیزہ تھا “؟

بلوچستان کی فرسودہ روایات اور مردانہ دوغلہ پن:

تحریر :بجار خان مری

کچھ معاشروں میں غیرت کے نام پر عورت کا خون اتنا ارزاں ہے کہ اسے قتل کرنے والے کو ہیرو بنا دیا جاتا ہے جبکہ اسی غیرت کے علمبردار خود دوسروں کی بیٹیوں کی عزتیں لوٹنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

بلوچستان میں “سیاہ کاری” یا “کالی کرنے” کے نام پر لڑکیوں کو ان کی پسند کی شادی کرنے پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، لیکن اسی معاشرے کے مردوں کے لیے زنا، بدکاری اور عصمت دری کوئی جرم نہیں، بلکہ اکثر “مردانہ شان” سمجھا جاتا ہے۔ یہ کون سا انصاف ہے؟ کیا غیرت صرف عورت کے لیے ہے؟ کیا مرد کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ عورت کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرے، جبکہ خود وہ گناہوں کے دلدل میں لت پت ہو؟

بلوچستان میں جب کوئی لڑکی اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتی ہے یا اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے، تو اسے “کالی” قرار دے کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس قتل کو “غیرت” کا نام دیا جاتا ہے، اور قاتل کو معاشرے میں “بہادر” سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہی “بہادر” ہوتے ہیں جو بعد ازاں دوسری لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں، زنا کے مرتکب ہوتے ہیں، اور دوستوں کے درمیان اپنے “کارناموں” پر فخر کرتے ہیں۔ کیا یہی غیرت ہے؟ کیا غیرت صرف عورت کے جسم اور اس کی مرضی تک محدود ہے؟

وہ سردار اور وڈیرے جو کسی لڑکی کی پسند کی شادی پر جرگہ بلا کر اس کے قتل کا فیصلہ کرتے ہیں، وہی لوگ کمزور طبقے کی لڑکیوں کو زبردستی اٹھا کر اپنے ڈیروں پر رکھتے ہیں۔ ان کے لیے عزت اور غیرت کا تصور صرف دوسروں کی بہن بیٹیوں پر لاگو ہوتا ہے۔ اگر واقعی غیرت کا معیار یکساں ہوتا، تو ہر وہ مرد جو کسی عورت کی عزت سے کھیلتا ہے، اسے بھی اسی طرح سزا ملنی چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ معاشرہ عورت کو تو ایک “ملکیت” سمجھتا ہے، جسے جب چاہے تباہ کر دے، لیکن مرد کو ہر گناہ کی چھوٹ دے دیتا ہے۔

اگر غیرت کا قانون منصفانہ ہوتا، تو ہر وہ مرد جو کسی عورت کی عزت لوٹتا، اسے بھی اسی طرح سنگسار کیا جاتا یا گولی مار دی جاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ معاشرہ عورت کو کمزور سمجھ کر اس پر ظلم کرتا ہے، جبکہ مرد کو ہر قسم کی آزادی دیتا ہے۔

اگر واقعی غیرت نام کی کوئی چیز ہوتی، تو یہ معاشرہ اپنے مردوں کو بھی اخلاقی پیمانے پر پرکھتا۔ لیکن جب 95% مرد کسی نہ کسی طرح عورتوں کے خلاف گناہ میں ملوث ہوں، تو پھر یہ غیرت کا نہیں، بلکہ بے غیرتی کا معاشرہ ہے۔

معاشرےکی فرسودہ روایات اور سرداری نظام نے عورت کو ایک مجبور مخلوق بنا دیا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس دوغلے پن کو ختم کیا جائے۔زرا ہم سب مرد اپنے گریبانوں میں جھانکیں کیا ہم سب کہیں واجب القتل تو نہیں کالے (سیاہ کار)تو نہیں۔

غیرت کا قانون اگر لاگو ہو، تو مرد اور عورت دونوں پر یکساں ہو۔ عورت کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق ہونا چاہیے، اور مرد کو یہ حق نہیں کہ وہ عورت کی مرضی کو کچل دے۔ ہم سب کو اپنے اندر کے اس سیاہ اخلاق کو بدلنا ہوگا، ورنہ ہم واقعی سب کالے ہیں۔
LubnaQureshi former Central President Human Rights Wing and Social Activist