Jobs  |   11 September 2024

لمحہ فکریہ تحریر – کشف عبیر

| 28 Dec 2023  

کچھ المیے وقت کی گود میں پرورش پا کر انسان کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے ہیں اور رونما ہونے پر ہم انہیں اچانک ہونے والا حادثہ قرار دیتے ہوۓ پھر سے آنھکیں موند لیتے ہیں دل کو چھلنی اور روح کو گھائل کر دینے والے ان ناسوروں کی موجودگی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر اس قدر عدم توجہی میری سمجھ سے باہر ہے۔ زندگی میں آنے والے اتار چڑ ھاؤ سے گھبرا کر خودکشی کر لینے والوں کی آخری سانسوں کی گھٹن مجھے اپنے سینے میں محسوس ہوتی ہے۔ کیا کوئی پہلی بار ہی ایسا خیال آجانے پر اپنی جان لے لیتا ہوگا؟ ہم اس بارے میں کیوں کچھ سوچتے ہیں نہ کرتے ہیں ؟ کیا یہ ہمارے اپنے نہیں ؟ کیا یہ ہمارے بچے نہیں ؟ ہم بس ان کو ایک ایک کر کے جاتا دیکھتے رہیں؟ ان کو زندگی جینے کی ترغیب دینے کی بجاۓ اپنی یا دوسروں کی زندگی چھیننے والا بننے دیں،انھیں مشکلات کے خوف سے گم نام ہونے دیں ، انہیں فرار کے طور پر نشے کا عادی بنتے ہوۓ دیکھتے رہیں انہیں یہ احساس دلانے سے پہلے کہ وہ کتنے قیمتی اور انمول ہیں خود کو خاک کر کے بے مول ہوتا دیکھتے رہیں ،ان کو آسانی سے نفسیاتی مریض بن کر اپنی اور دوسروں کی زندگی میں زہر گھولنے والا بننے دے کر اس معاشرے کا ناسور قرار دے دیں اور بس؟؟؟ کیا صرف یہی ہے جو ہم اپنے بچوں اور نوجوان نسل جو حقیقی معنوں میں ہمارے ملک وقوم کا سرمایہ ہیں،کے لیۓ کر سکتے ہیں ؟ بربادی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے کوئی ان کا ہاتھ تھامنے والا نہ ہو ،کیوں؟ جب کوئی شخص تباہی کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے ہم اس وقت اس کا ہاتھ کیوں نہیں تھام لیتے آخر؟ جب تک روک تھام کی گنجائش ہوتی ہے ہم مسئلےکو کسی کا ذاتی معاملہ قرار دے کر کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں اور جب حادثہ ہو جاتا ہے ہم اسے پبلک کر دیتے ہیں، اظہارراۓ کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں۔ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہم آخر کیوں “احتجاج پسند” ہی بننا پسند کرتے ہیں “احتیاط پسند” کیوں نہیں بن جاتے ؟ یہ بہت عام رویہ ہے کہ دنیا سے جانے والے اور مظلوم سے فوراً ہماری ہمدردیاں وابستہ ہو جاتی ہیں لیکن بصد معذرت وہ بھی وقت گزر جانے کے بعد ۔ لیکن کس بھی سانحے کی طرف ہونے والی پیش رفت اور متاثرہ بچے، بچی یا کسی بھی شخص کی ابتدائی صورتحال کیوں گرفت میں نہیں آنے پاتی کیوں نظر سے چُوک جاتی ہے یہاں تک کہ پانی سر سے گزر جاتا ہے ظالم سے محبت نہیں ہو پاتی ،یقین ہے مجھے اس بات کا، مگر اتنا ہی یقین اس بات پر بھی ہے کہ دل میں ظالم اور مظلوم دونوں سے ہمدردی پیدا کیۓ بنا ظلم کا خاتمہ ممکن نہیں، کسی سٹیج پر تو ظالم کا ظلم ناپختہ ہوگا ۔ کوئی مینٹل سٹیٹ تو ہوگی جہاں سے اسکی نفسیات بگڑنے کی ابتدا ہوئی ہوگی جو کہ یقینا قابل اصلاح اور قابل علاج ہوگی لیکن بس کسی نے توجہ دینا ضروری نہیں سمجھا۔ ہمیں کیوں یقین نہیں آتا کہ یہ سب ہمارے اپنے ہیں کوئی بھی تو ہم سے الگ نہیں اور چلو مان لیتے ہیں ہمارے اپنے بچے ہی بس ہمارے اپنے ہیں لیکن یاد رکھئے کہ
what goes around comes around one day.
جو اردگرد ہو رہا ہوتا ہے وہ ایک نہ ایک دن ہمارے ساتھ یا ہمارے کسی بہت اپنے کے ساتھ بھی ہو کے رہتا ہے۔ بچوں کی شخصیت میں تعمیری عوامل یا ٹوٹ پھوٹ دونوں ہی بچپن سے ہو رہے ہوتے ہیں لیکن وہ بتا نہیں پاتے والدین اور اساتذہ بھی اگنور کر دیتے ہیں ۔ اور یہ مسائل بڑھتے بڑھتے ان کی شخصی ، تعلیمی اور معاشرے میں ایک مفید اور اچھے انسان کے طور پر کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ بچے بچپن میں ہی انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں ، کوٸی مثبت اور کارآمد سوچ ان کے ذہن میں نہیں آتی نہ زندگی کے مثبت پہلو میں ان کا دل لگتا ہے ۔ 99% ایسے ہی بچے نو عمری میں ہی نشے ،بری عادات ، جرم اور خود کشی کی کوشش کی طرف ماٸل ہوتے ہیں اور اگر وہ ان چیزوں سے بچ بھی جاٸیں تو صحیح رہنمائی نہ ہونے کے باعث ذہنی الجھن کی وجہ سے نہ وہ اچھے گھریلو فرد بنتے ہیں نہ اچھے ماں باپ ، اس کے بعد وہ اپنے ہی جیسے مزید افراد پیدا کرتے اور ان کو معاشرے کا حصہ بناتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ سب صدیوں سے چلا آرہا ہے ۔ ہم ہر گھر میں جا کر ان مساٸل کی روک تھام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے لیکن اگر سکول اور کالجوں کی سطح پر اس حوالے سے موثر منصوبہ بندی کی جاۓ تو ہم بچوں کے تعلیمی نصاب ،سائیکالوجی اور کرئیر کاؤنسلنگ اور مختلف سکول پروگرامز کے ذریعے بچوں کو صحیح سمت کی طرف گامزن کر کے ملک کے ہر گھر تک اس کی آگاہی دے سکتے ہیں تا کہ کسی کے بچے کی خدادا صلاحیتیں ضاٸع نہ ہوں ،کسی کا بچہ پریشان اور منتشر ذہن والا نہ بنے ،کسی کا بچہ نشے میں ملوث ہو کے اپنی اور گھر والوں کی زندگی نہ تباہ کرے ،کسی کا بچہ جوانی میں ذاتی مساٸل جیسے محبت میں ناکامی ، مالی مساٸل ، گھریلو مسلے ، آفیشل مساٸل یا کسی بھی وجہ سے خودکشی کر کے موت کے اندھیروں میں نہ چلا جاۓ جہاں سے نہ کبھی وہ خود واپس آسکتا ہے نہ ہی کوٸی دوسرا اس کو کبھی واپس لا سکتا ہے۔ میں حکومت وقت سے اپیل کرتی ہوں کہ حکومتی سطح پر اس بات کو عمل میں لایا جاۓ کہ سکولز اور کالجز میں اساتذہ کے ساتھ ساتھ ساٸیکالوجسٹ بھی بھرتی کیۓ جاٸیں اور اساتذہ اور طالبِ علم دونوں کی کاٶنسلنگ اور ٹریننگ سیشن ہفتہ وار کی جاٸیں اور تمام ادارے خواہ وہ گورنمنٹ کے ہوں سیمی گورنمنٹ ہوں یا پراٸیویٹ وہ سب اپنے اداروں میں جس حد تک بھی ممکن ہو سکے، اس کو امپلیمنٹ کریں۔

1 comment

  1. بہت اعلی تحریر اور بہترین سوچ۔۔۔میں بھی محترمہ کشف عبیر کے مؤقف کی حمایت کرتی ہوں۔ انہوں نے جو مطالبہ کیا ہے وه بالکل درست ہے جس طرح ذہنی بے سکونی اور ڈپریشن ہماری نوجوان نسل میں سرایت کررہا ہے یہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ماہر نفسیات اور کیریئر کاؤنسلرز مقرر کئے جانے چاہئیں۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *