Jobs  |   19 September 2024

عنوان: میرے ادبی سفر کا آغاذ ازقلم: سونیا ارم۔کراچی

| 28 Dec 2023  

کہتے ہیں کسی نہ کسی کام کو کرنے کے لۓ اسکا آغاز مشکل ہوتا ہے لیکن جب انسان کوشش کرتا ہے تو وہ بڑے سے بڑے کام کو بھی کر لیتا ہے۔میرا نام سونیا ارم ہے۔میں صوبہ پنجاب کے شہر چکوال میں پیدا ہوئی۔بچپن۔لڑکپن ماں باپ۔بہن بھائیوں کیساتھ اپنے آبائی گھر میں ہی گزارا۔انٹر تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں کراچی آگئ۔یہاں آکر شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئ۔دس سال میں نے استاد کے فرائض انجام دئیے, یہ سال میری زندگی کے بہترین سالوں میں سے تھے۔پھر حالات نے کروٹ بدلی تو اسکے ساتھ پریشانیوں نے بھی ہماری دہلیز پہ پاؤں رکھ دیا سال 2016ء سے مشکلات۔دکھ ۔ڈپریشن ۔تکلیفیں سے میری آگاہی ہوئی۔خیر سال گزر گیا اور 2017ء میں ہم رشتہ ازدواج میں بندھن کر پھر سے کراچی مقیم ہو گئے۔ماں باپ کے گھر سے ڈولی تو اٹھی ساتھ چھوٹی چھوٹی خوشیوں ۔خواہشوں کا جنازہ بھی نکل گیا۔خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقی زندگی میں قدم رکھا تو جانا کہ میکے اور سسرال میں بہت فرق ہوتا ہے۔عورت آتی تو اکیلی ہے مگر پیچھے بہت کچھ چھوڑ کے آتی ہے ۔ہم جو آزاد پنجھی کی زندگی کے سنہرے خواب دیکھا کرتے تھے اسیر قفس بن کر رہ گئ۔
سال 2018ء میں اللہ نے ہمیں اپنی رحمت سے نوازا تو میری زندگی میں بہار جیسے لوٹ آئی۔پہلےمیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں پہ بیٹھ کے رونے لگتی تھی وہ چھوڑ دیا۔اس ننھی سی جان نے میری آدھی تکلیفیں کم کر دی تھیں۔انسان کی زندگی کبھی دھوپ کبھی چھاؤں جیسی ہے نا ۔یہی حال میری زندگی کا بھی ہے نومبر 2020ء میں میری پھپھو کا انتقال ہوا۔ان کے جانے کے پندرہ دن بعد میرے تایا ذاد بھائی کا انتقال ہوا۔جو ہمارے لۓ بہت بڑا دکھ تھا۔اسی رات بھائی کی تدفین کے بعد ابو گھر آکر لیٹے تو انہیں فا لج کا اٹیک ہوا۔ساتھ ہی گردوں پہ بھی اثر پڑا۔مگر علاج چلتا رہا تو بہتر ہو گۓ۔کچھ دن بعد ابو کی طبیعت خراب ہو گئ۔بول چال بند ہو گئ تو ہمیں بھی بلا لیا گیا۔ہم تین چار مہینے رہ کر واپس آگۓ۔ستمبر 2021 میں اللہ نے ایک بار پھر مجھے اپنی رحمت سے نوازا۔میرے چھوٹے بھائی کی شادی تھی۔جو میری طبیعت کی وجہ سے لیٹ ہو رہی تھی۔میں جا نہیں سکتی تھی اور میرے بغیر شادی ہو نہیں سکتی تھی۔عجیب سی ٹینشن کا ماحول تھا۔میرے ابو کو پہلے سے لگنے لگا تھا کہ انکی زندگی تھوڑی رہ گئ ہے ,اس لے وہ شادی جلدی کرنے کی کہتے تھے کہ میں نے اللہ سے ادھار لی ہوئی ہے زندگی۔میری طبیعت خراب ہوئی ایمرجینسی میں آپریشن کیا گیا۔خیر ڈیڑھ مہینے بعد ہم گاؤں چلے گۓ۔شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں ہم تین دن پہلے پہنچے۔یکم نومبر کو بھائی کی شادی ہوئی۔2 کو ابو کی طبیعت خراب ہو گئ۔ڈاکٹر سے دوائی لی کوئی خاص فرق نہیں پڑا,چکوال لے گۓ وہاں دو دن داخل رہے انہوں نے گھر بھیج دیا۔شام کو گھر آۓاور صبح سی ایم ایچ راولپنڈی چلے گئے وہاں بھی انکی حالت میں کوئی سدھار نہیں آیا۔کھانا پینا چھوڑ دیا۔لوگوں کی پہچان ختم ہو گئی۔اللہ نے مجھے بیٹی تو دی تھی مگر یہ بہت ذیادہ روتی تھی۔اس وجہ سےمیں ہسپتال بھی نہیں جا سکی۔ڈاکٹر نے رپورٹس کے بعد بتایا کہ انہیں ہارٹ اٹیک بھی ہو چکا ہے۔15 نومبر کی صبح میرے ابو کو صبح چھ بجے پھر ہارٹ اٹیک ہوا اور 8 بجے وہ اس جہان فانی سے اپنے مالک حقیقی کی طرف لوٹ گئے۔وہ دن میرے لۓقیامت سے کم نہیں تھا۔ہنستا کھیلتا گلستان اجڑ گیا۔وہ گھر جسے کچھ دن پہلے روشنیوں سے سجایا گیا تھا۔اسی گھر میں صف ماتم بچھ گئی تھیں۔دس دن بعد ہم واپس کراچی آگئے مگر میرے دل و دماغ سے میرے ابو کی وفات کا منظر نہیں جاتا ۔سارا وقت انکی باتیں میرے دل و دماغ میں گردش کرتی رہتیں۔میں خود کو بہت اکیلا محسوس کرتی میرا دکھ بانٹنے والا کوئی نہیں تھا۔جہاں میرے سسرال والوں نے میرے جیون ساتھی نے میرا دکھ نہیں بانٹا وہیں میرے بہن بھائیوں نے بھی کبھی ابو کے حوالے سے مجھے تسلی نہیں دی۔میں اندر ہی اندر گھٹتی رہتی۔پھرایک دن میری ایک ایمانی ساتھی عاتکہ مشتاق کا سٹیٹس میری نظر سے گزرا انکی کوئی تحریر چھپی تھی ۔میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ کیسے شائع کرواتی ہیں تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ لکھ کے مجھے بھیج دیں میں کروا دوں گی خیر میں نے کاپی پینسل لی اور لکھ کے تصویر بنا کے موبائل سے بھیجی تو انہوں نے مجھے کہا کہ موبائل سے میسج کی طرح لکھ کے بھیجوں ۔میں نے انکو لکھ کے بھیج دی ۔پر میری وہ تحریر ابھی شائع نہیں ہوئی تھی کہ میں نے ایک اور ایمانی ساتھی طوبی علی رضا سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم آن لائن گروپ میں تحریر بھیجتے ہیں ۔میں نے ان سے کہا کہ مجھے بھی ایڈ کروا دیں۔انہوں نے کوکب آپی کو میرا نمبر دے دیا انہوں نے مجھے مصافحہ ادب انٹرنیشنل۔گوہرنایاب ڈائجسٹ میں ایڈ کروایا اور مجھے سر زکیر بھٹی صاحب کا نمبر دیا اور مجھے کہا کہ یہ میرے بھائی ہیں آپ رابطہ کرلیں وہ آپکو پہچان پاکستان میں ایڈ کر دیں گے۔انہوں نے بھی سر سے بات کی سر نے میرے تعارف کے بعد مجھے ایڈ کر دیا۔میں نے “دہشتگرد کون” کے نام سے سےپہلی تحریر لکھی تھی وہ بھی ٹائپینگ میسج میں بہت مشکل ہوئی تین بار ڈیلیٹ ہوئی پھر لکھی جب سر نے دیکھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ مجھے یقین نہیں ہوا یہ آپکی پہلی تحریر ہےبہت اچھا لکھا۔سر زکیر احمد صاحب کی میں بہت مشکور ہوں جنہوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور کوکب آپی نے ادب کی دنیا میں ہر جگہ میرا ساتھ دیا۔مجھے لکھنا نہیں آتا تھا آپی نے مجھے کاؤنٹ پیڈ کا لنک دیا اس کے ذریعے میں نے لکھنا شروع کیا۔مجھے ایک پیراگراف مکمل کرنے کے بعد نیچے والی لائن پہ کیسے لکھنا ہے ,اس بٹن کا بھی آپی نے بتایا۔میں لکھ تو لیتی تھی مگر مجھ سے پوری کہانی شیئر نہیں ہوتی تھی, کوکب آپی نے مجھے کاپی,پیسٹ کرنا سکھایا۔ہر جگہ انہوں نے میری رہنمائی کی۔ایک بار ہماری ایک گروپ میں گپ شپ ہو رہی تھی شعر و شاعری کے انداذ میں۔مجھے شاعری کا طالب علمی کے زمانے سے شوق تھا , تو میں بھی شاعری میں جواب دے رہی تھی تب وہاں کے سر نے مجھے کہا کہ آپکا استاد کون ہے? میں نے کہا کہ کوئی نہیں تو سر نے نےمجھے کہا کہ آپ استاد بنالیں۔آپکا تخیل بہت اچھا ہے بس عروض پہ توجہ دیں۔تب مجھے پتا نہیں تھا کہ عروض کس بلا کا نام ہے۔آپی نے مجھے کہا کہ اب آپ نے خود دیکھنا ہے۔اس فیلڈ میں آپکو ہر طرح کے لوگ ملیں گے۔میں ہرجگہ آپکے ساتھ نہیں ہوں گئ۔یوں پہچان پاکستان بنا میرے لفظوں کی زبان,میرے درد کا ترجمان ۔سر زکیر احمد بھٹی,کوکب آپی,اورارسلان سر کی میں بہت شکر گزار ہوں جنہوں نے میری ہر قدم پہ رہنمائی کی۔انک دی گئ رہنمائی میرے لۓمشعل راہ بنی۔آج الحمد للہ میری سو سے ذائد تحریریں مختلف اخبارات میں چھپ چکی ہیں۔جن میں پہچان پاکستان مصافحہ ادب۔روزنامہ سٹار,گوہر نایاب میگزین,راہنما,ڈیلی لاہور ڈیجیٹل,طالب نظر شامل ہیں۔میری دعا ہے اللہ پاک میرے قلم کی سیاہی سے لکھے لفظوں کو دوسروں کے لۓ روشنی بنا دیں اور میں ہمیشہ خیر لکھوں۔آمین

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *