Jobs  |   19 September 2024

الیکشن ملتوی کرانے کی سازش یا موجودہ حالات میں ضرورت   سلمیٰ جہانگیر

| 24 Jan 2024  

پشاور کے رہائشی 78 سالہ گل رحمان کو شروع سے ہی سیاست میں دلچسپی تھی۔ انہوں نے اپنی عمر میں تمام اتار چڑھاو اور عوامی حکومت سے لیکر آمریت تک ہر قسم کی حکومت دیکھ لی ہے۔

وہ کہتے ہیں پاکستان میں جب میں انتخابات کا ماحول گرم ہوتا تو اس طرح کے حالات سامنے آتے تھے جس سے یا تو انتخابات ملتوی ہوجاتے یا پھر اس کو لیٹ کیا جاتا ہے، شاید سیاسی لوگ اپنی ذاتی مفاد کے لئے ایسا کرتے ہیں جبکہ اس صورتحال میں عوام کے فائدے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ چلو امن بھی لیا کہ کچھ سیاسی ممبران کو تھرٹس ہے یہ تو شروع سے ہی ایسا ہوتا ہے اگر انتخابات کو امن و امان کی خراب صورت حال کا بھانہ بنا کر لیٹ بھی جائے تو کتنا لیٹ کر سکتے ہیں قانون کے مطابق 2 مہینوں سے نہیں لیٹ کیا جاسکتا یا پھر کیا جب بھی انتخابات ہوں گے تو پھر حالات کنٹرول میں ہوں گے؟

گل رحمان مسکرا کر کہتے ہیں حالات تو وہی ہے جو کئ سالوں سے ہے کہی ایسا تو نہیں مارشل لا کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔

پس منظرالیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق پورے ملک میں  8 فوروی 2024 کو عام اانتخابات کرائے جائیں گے لیکن اس انتخابات کے حوالے ملک میں عجیب سے حالات جنم لے رہے ہیں ۔

کچھ دن پہلے چئیرمین صادق سنجرانی کی سربراہی میں ملک میں انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی گئ ہے۔ جس میں کہا گیا ہے سیاست دانوں پر حملے ہونے کی وجہ سے اور دہشت گردی کے خدشات کی وجہ سے 8 فروری کو ہونے والے انتخابات ملتوی کر دیا جائے۔جس وقت سینٹ کے اجلاس میں یہ قرار داد پیش کیا گیا تو صرف 14 ارکان موجود تھے کورم پورا بھی نہیں تھا ۔ قرار داد کی منظوری کے بعد جماعت اسلامی کی جانب سے دوسری قرار داد سینیٹ میں جمع کی گئ جس میں انتخابات وقت پر کارنے کا تقاضا کیا گیا تھا۔

 

پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے؟

 

پاکستان کے آئین آرٹیکل 52 میں بتاتا گیا ہے کہ ققومی اسمبلی کی مدت 5 سال ہے یعنی ہر 5 سال بعد قومی اسمبلی کا الکیشن ہوگا ۔

اگر اسمبلیاں 5 سال کا معیاد پورا کرتا ہے تو 5 سال کے بعد خود بخود اسمبلیاں تحلیل ہوجاتی ہیں ۔ تو 60 دن کے اندر انتخابات کرانا ملک میں لازمی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق آگر 5 سال کی مقررہ وقت پورا کرنے سے پہلے ہی اسمبلیاں تحلیل ہوجائے تو پھر 90 دن میں الیکشن کرانا لازمی ہے۔

 

الیکشن تاخیر سے ہو یا نا ہو سیاسی رہنما کیا کہتے ہیں؟

 

شگفتہ ملک عوامی نیشنل پارٹی پی کے 73 سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں کا کہنا ہے کہ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثرہ صوبہ خیبرپختونخوا ہے جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو سب سے زیادہ نقصان عوامی نیشنل پارٹی کو ہوا ہے اگر ماضی پر ںظر ڈالی جائے تو دہشت گردی کا شکار ہوکر سب سے بڑے بڑے لیڈر اے این پی کے شہید ہوئے ہیں کیونکہ پشونوں کی سایسی جماعت ہے اور اسی پختونخوا کے مٹی کے اپنے لوگ ہیں۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ اب بھی اس الیکشن مین بھی تھرٹس ہیں انکی سیاسی جماعت کو یا ان کے رہنماوں کو لیکن پھر بھی ان کے حوصلے بلند ہے وہ چاہتی ہیں کہ الیکشن اپنی مقررہ وقت پر ہو وہ اپنی انتخابی مہم میں بھر پور حصہ لے رہی ہیں کیونکہ سب عوام کو دہشت گردی کا مقابلہ ڈٹ کر کرنا ہے۔

 

دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام ف کے امیر مولانا فضل رحمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کو اور ان کے پارٹی کے رہنماوں کو اس الیکشن میں جان کا خطرہ ہے اس لئے نگران حکومت اور تمام ذمہ دار اداروں کو چاہئے کہ الیکشن کو تھوڑا سا لیٹ کیا جائے۔ کیونکہ خدشات اور خطرے کی وجہ سے ان کے سیاسی رہنما اور ورکرز الیکشن مہم میں اس طرح  حصہ نہیں لے سکتی جسطرح ضروری ہوتا ہے۔

 

 

 

الیکشن کمیشن آف پاکستان کیا کہتا ہے؟ کیا واقعی سکیورٹی خدشات الیکشن کو لیٹ کر سکتا ہے؟

 

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق کیا واقعی قرار داد اور حالت کی روشنی میں انتخابات لیٹ ہوسکتے ہیں سوال کہ جواب میں ترجمان سہیل احمد کہتے ہیں کہ انتخابات کو کوئی بھی کتنا بھی لیٹ کریں یا اس میں تاخیر کریں تو 2 یا 3 مہینوں سے زیادہ نہیں کرسکتے اسکے بعد انتخابات کو ہونا ہی ہے۔

جہاں تک سکیورٹی کی بات ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سکیورٹی اداروں جیسے پولیس اور پاکستان آرمی کو خط لکھا جاتا ہے ان کی جانب سے ماضی میں بھی کافی سپورٹ ملی تھی اور آنے والے انتخابات میں بھی ان کی جانب سے سکیورٹی کے تمام انتظامات کو پر احسن طریقے سے انجام دیا جائے گا۔

وہ بتاتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابات کے تمام انتظامات ہوچکے ہیں۔ خدانخواستہ انتخابات میں تاخیر ہو بھی جائے تو صرف پولنگ ڈے میں ہوگا ۔فلحال تو مقررہ وقت پر الیکشن ہونے ہیں۔

 

قانون کی نظر میں کب اور کیسے انتخبات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں ،حکومت کی کیا زمہ داری بنتی ہیں۔

 

کسی بھی انتخاب کو منسوخ یا لیٹ کرنے کے حوالے سے ملک کا قانون کیا کہتا ہے قانونی ماہر طارق افغان ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ قانون کے مطابق حکومت کا مقررہ وقت ختم ہونے کے ساتھ ہی 90 دن میں الیکشن کرانا ضروری ہے۔

جہاں تک الیکشن کے تاخیر کا اندیشہ ہے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے اور پھر نگران گورنمنٹ  کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو شفاف اور منصفانہ انتخابات کا موقع دیا جائے  اور پرامن انتخابات منعقد ہو جس میں عوام  آسانی کے ساتھ پولنگ سٹیشنز جا سکے اور اپنا ووٹ کاسٹ  کر سکیں  تمام سیاسی جماعتوں کو ایسا ماحول ملیں جس میں وہ آزادانہ طور پراور پرامن طور پر انتخابات  کا کمپین چلا سکے  جلسے جلوس منعقد کروائیں  تو ایسے حالات میں  انتخابات کا ہونا ممکن ہے۔

اگر دیکھا جائے تو 2013  کے انتخابات  میں حالات  بہت خراب تھے جلسوں میں دھماکے ہوتے تھے خاص طورپر  عوامی نیشنل پارٹی کے جلسے جلوسوں میں  بہت دھماکے ہوتے تھے اسکے علاوہ ٹارگٹ  کلنگز بہت تھے  جس میں بہت سے کارکنان اور رہنما اپنی زندگیوں  سے ہاتھ دھوکر بیٹھے جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کے جلسوں میں ایسا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تھا   اور نا ہی کوئی دھمکی  ملی تھی ۔ اس لیے انہوں نے دوسری سیاسی جماعتوں  کے مقابلے میں اپنا مہم اور جلسے جلوس پرامن طریقے  سے چلائیں  اور  اسی سال پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات میں  کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔

طارق افغان  نے مزید بتایا کہ اسی  طرح اگر 2018  کے انتخابات کو دیکھا جائے  تو انتخاب  سے پہلے عوامی  نیشنل پارٹی کے  رہنما  ہارون بلور  اپنے انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کا شکار ہوئے  جس سے عوامی نیشنل پارٹی  کے کارکنان کے حوصلے پست ہو گئے  اور انہوں  نے کافی حد تک  انتخابی مہم اور جلسوں  میں  حصہ لینا کم کردیا  تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب تک حالات پر امن ہوتے ہیں  انتخابات  منظم اور پر امن طریقے  سر انجام پاتے ہیں   طارق افغان نے بتایا  کہ  2024   یعنی آنے والے انتخابات پچھلے سالوں کے مقابلے میں  بہت سازگار  ہیں  کیونکہ سابقہ  انتخابات  2013 اور 2018سے پہلے کے حالات  بہت خراب تھے اور بد امنی بہت زیادہ تھی۔

اس سال اگر دیکھا جائے  تو مولانا فضل رحمان اور ایمل ولی کو دھمکیاں  دی گئی  ہیں لیکن اسکے باوجود وہی سیاسی جماعتیں  انتخابات کرانے کے حق میں  ہیں  کہ یہ ایک سیاسی عمل ہے اور ایسے حالات  ابھی نہیں  بنے کہ نگران حکومت  انتخابات کو ملتوی کریں ۔

طارق افغان کے مطابق انتخابات  تب ھی ملتوی  ہو سکتے ہیں  جب تمام سیاسی جماعتیں  بائیکاٹ کریں  اگر ایک پارٹی  بائیکاٹ  کا اعلان کرتی ہے تو تب بھی انتخابات اپنے مقررہ  وقت پر ہونگے 1997 میں جماعت  اسلامی  نے بائیکاٹ  کا اعلان کیا تھا لیکن انتخابات اپنے مقررہ  وقت پر کروائے گئے  تھے۔انتخابات تب تک ملتوی  نہیں ہو سکتے جب تک ملک حالات جنگ کی حالت  میں  نا ہو یا ملک کے اندرونی  حالات جب کنٹرول سے باہر  ہو جائیں  یا اگر ریاست کے پاس پیسہ نا ہو ملک دیوالیہ  ہو جائے  تو ایسے حالات میں  انتخابات معطل ہو سکتے۔ ورنہ کوئی جواز نہیں بنتا ہے الیکشن ملتوی ہو۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *