0092-313-5000-734    
Jobs  |   25 Nov 2024

افسانہ رضیہ آخری حصہ نورین خان پشاور 

| 3 Jan 2024  
آفریدی صاحب نے کہا ارے ایسا بھی کیا ہے ابھی ایک بجنے میں ایک سکینڈ باقی ہے
یہ سن کر فرید الدین صاحب مسکرائے اور کہا اچھا آئیں اندر رحمان صاحب کے پاس چلتے ہے شاید وہ آپکی کچھ مدد کر سکیں
خوشامدید آفریدی صاحب
کیسے آنا ہوا اس موسم میں؟
آفریدی صاحب سامنے کرسی پر براجمان ہوئے اور کہا بس کیا بتاوں رحمان صاحب ایک ضروری کام تھا بیگم کی فرمائش تھی کہ آج شاپنگ کرنی ہے تو چیک کیش کروانے آیا تھا
مگر آفریدی صاحب بینک تو بند ہو چکا ہے اور آج ویسے بھی پورے پشاور کی مارکٹیں بند ہو چکی ہے تو بھابھی کہاں شاپنگ کریں گی بہتر ہے کل پرسوں کیش کروائیں بینک کا ٹائم ختم ہو چکا ہے اور اب ہماری کاونٹنگ شروع ہے اور آج کلوزنگ بھی ہے ہم نے سٹیٹ بینک پشاور میں رپورٹ جمع کروانی ہے
یہ سن کر آفریدی صاحب نے سامنے دیوار پر قائداعظم کی تصویر کو دیکھ کر کہا واہ جناح واہ آپکے ملک میں کیا حب وطن ملازمین ہیں
رحمان صاحب مسکرائے اور بلند آواز سے اختر کو بلایا اختر اختر جاو جلدی سے آفریدی صاحب کے لئے گرم چائے لے آو
آفریدی صاحب ہمارے پرانے کسٹمر ہے اور قابل اعتماد ساتھی ہے
جی سر ابھی لایا چلو گل خان چائے بناتے ہیں صاحب کے مہمان آئے ہے اختر گل خان سے مخاطب ہوئے اور دونوں سٹور روم کیطرف چلے گئے
گل خان چائے لے آیا رحمان صاحب نے کہا آفریدی صاحب گرم چائے ہے نوش فرمائیں تھوڑی دیر آرام کریں پھر اختر آپکی ٹیکسی کروا دیگا چیک کل پرسوں ٹائم پر کیش کروائیں آج تو پشاور کے حالات ٹھیک نہیں ہے
اختر پریشانی میں آتا ہے رحمان صاحب رحمان صاحب پانی بینک کے اندر تک آرہا ہے کیا کرو ساتھ والا گٹر پانی سے بھر چکا ہے اور نالیاں بھی تالاب بن چکی ہے رحمان صاحب دروازے تک گئے اور پوچھا محبوب بھائی اسکا کوئی حل نکالو ورنہ پورا دفتر تالاب بن جائے گا
اسی دوران بلال آیا اور مشورہ دیا کہ سر یہاں بند نا باندھ دیں رحمان صاحب نے کہا اتنا ٹائم ہے ہمارے پاس جاو تم اسٹمینٹ بناو کام مکمل کرو۔
فرید الدین صاحب نے کہا سر پشاور کے حالات ٹھیک نہیں ہے آپ بھابھی کو فون کریں کہ گھر سے باہر آج نا جائیں پکوان کی دعوت پر
یہ سن کر رحمان صاحب کو فکر ہوئی کہ واقعی اور فورا آفس میں فون کرنے چلے گئے
ہیلو بھابھی جی میں رحمان بات کر رہا ہوں
سلمی نے بتایا تھا کہ بھابھی نے آج پکوان کی دعوت پر بلایا ہے تو سلمی بچوں سمیت گھر سے نکل چکی ہے تقریبا دو گھنٹے پہلے
اوہ اچھا ابھی تک نہیں پہنچے
اچھا بھابھی جب پہنچ جائیں تو مجھے فون پر اطلاع کر دیں بہت شکریہ خدا حافظ
کیا سلمی بھابھی نہیں پہنچی فرید الدین صاحب نے پوچھا
نہیں فرید مجھے اب فکر محسوس ہو رہی ہے
یہ سلمی نے بڑی پریشانی کھڑی کر دی
مس رضیہ آپ کیا بات ہے؟
سر دفتر کے سارے ٹیلی فون ڈیڈ ہو چکے ہیں
تو میں کیا کرو جا کر 18 پر کمپلین کرو
رحمان صاحب آپ خود چلے جائیں اور بھابھی بچوں کا پتہ کروائیں ہو سکتا ہے راستے میں ٹیکسی خراب ہو گئی ہو آپکو راستے میں مل جائینگے فون تو ویسے بھی خراب ہو چکے ہیں انتظار کا کوئی فائدہ نہیں اب
ہاں یہ تو ٹھیک کہتے ہو میں آتا ہوں ایک گھنٹے میں اسٹمنٹ تیار کرکے میز پر رکھ دینا میں واپس آکر اس پر دستخط کر دونگا
اوکے سر آپ جائیں
بینک منیجر رحمان صاحب اپنا بریف کیس اٹھا کر جانے لگے تو ساتھ آفریدی صاحب بھی جانے کو تیار ہوئے رحمان صاحب پہلے نکل گئے اچانک دھڑام سے گرنے کی آواز آئی
اختر ہاتھ سے پکڑ کر آفریدی صاحب کو پھر سے پکڑ کر بینک کے اندر لے آئیں کہ آفریدی صاحب بارش کے پانی میں گر گئے
فرید الدین صاحب فورا سیٹ سے اٹھ کر آگئے ارے آفریدی صاحب آپ کیوں گئے تھوڑا بارش کم ہو جاتی پھر چلے جاتے
بلال ہاتھ میں رجسٹر تھامے فرید الدین صاحب کے پاس آئے اور کہا سر میرا کام مکمل ہو گیا ہے یہ لیں رجسٹر اور اب میں گھر جارہا ہوں
خبردار اگر تم گھر گئے ابھی وقت نہیں ہوا
یہ سن کر بلال غصے سے بولا سر میں نے اپنا کام ختم کر لیا ہے اور میں جارہا ہوں
فرید الدین صاحب نے کہا میں آپکی شکایت رحمان صاحب سے کرونگا
ضرور کرو میں کسی سے نہیں ڈرتا
خود تو رحمان صاحب چلے گئے ہے اور میں نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے اور میں نا جاو واہ بھئی واہ
یہ کہہ کر بلال نے محبوب چاچا سے کہا دروازہ کھولو اور بلال چلے گئے
اس پر فرید الدین صاحب تپ گئے
تو عبداللہ نے کہا سر بلال حق پر تھے اسکا گھر بہت دور ہے کارخانوں سے بھی آگے اسکو پھر سواری نہیں ملتی
جسٹ شٹ آپ عبداللہ تم بلال کی کیوں سائیڈ لے رہے ہو
فون کی گھنٹی بجتی ہے اور رضیہ فون ریسویو کرتی ہے
سلام سرکاری بینک یونیورسٹی روڈ برانچ
فرید الدین صاحب
رحمان سر کا فون ہے آئیں بات کریں
جی سر کیا ہوا کیا بھابھی اور بچے ملے؟
اوہ اچھا نہیں ملے
اچھا ٹھیک ہے میں سب دیکھ لونگا خداحافظ
آفریدی صاحب نے کہا کیا ہوا فرید الدین صاحب خیریت؟
کیا بتاؤں آفریدی صاحب وہ رحمان صاحب کے بیوی اور بچے ابھی تک نہیں ملے
اوہ ہو یہ تو واقعی تشویش کی بات ہے
آفریدی صاحب نے کہا گل خان گل خان کوئی چائے وائے ہے برخوردار تو لے آو بارش تو رکنے والی نہیں
گل خان سوچوں میں گم تھا
کہ اسکی پرانی جھونپڑی کی چھت بارش سے گر چکی ہے اور اسکے بچے بارش میں کھڑے رو رہے ہے
ارے گل خان کن سوچوں میں گم ہو؟
جی جی آفریدی صاحب ابھی لایا چائے
ارے فرید الدین صاحب آپ کیوں غصے میں ہے
کیا بتاو آفریدی صاحب کام مکمل ہوا نہیں اور بلال وقت سے پہلے گھر چلا گیا ہے
میں رحمان صاحب کو کیا جواب دونگا
ارے فرید میاں کوئی بات نہیں رحمان صاحب خوب جانتے ہے کہ آج کیا حالات ہیں تھوڑا صبر رکھیں اس دوران پھر سے فون کی گھنٹی بجتی ہے
ٹرن ٹرن ٹرن
اسلام علیکم سرکاری بینک یونیورسٹی روڈ برانچ
جی فرمائیے
مس پروین مس پروین مسٹر فراز کا فون ہے
جی فراز
پروین فورا گھر پہنچو بچے اکیلے ہیں اور میں ادھر صدر میں پھنس چکا ہوں
تو کیا آپ مجھے دفتر لینے آج نہیں آئینگے ؟
فراز نے غصے سے کہا میں کیسے آوں میں خود صدر میں پھنسا ہوا ہوں تم فورا دفتر سے نکلو
مگر ابھی وقت مکمل نہیں ہوا فراز اور رحمان صاحب بھی اپنے بچوں کو ڈھونڈنے نکلے ہیں
رحمان صاحب کے صرف بچے ہیں اور تمھارے بچے نہیں ہیں کیا
 میں نے کہا فورا دفتر سے نکلو اگر ٹیکسی ملتی ہے تو ٹھیک ورنہ پیدل گھر پہنچو
میں بھی کوشش کرتا ہوں جلدی کرو
اور مسٹر فراز نے فون بند کر دیا
یہ سن کر پروین نے اپنا پرس اٹھایا اور چادر پہنی اور فرید الدین صاحب کے پاس گئی کہ سر میرے میاں بہت غصے میں ہیں اور میری مجبوری ہے میں گھر جارہی ہوں
مگر مس پروین میں خود بھی کسی کو روکنا نہیں چاہتا مگر ابھی کام مکمل نہیں ہوا آپ کیسے جاسکتی ہے؟
میں کل سارا کام مکمل کروا دونگی یہ کہہ کر پروین دفتر سے چلی گئی
اور آفریدی صاحب نے پوچھا کہا چلی مس پروین کوئی گاڑی وغیرہ
مل جائیگی آپکو یا نہیں
پروین نے جواب دیا کوئی گدھا گاڑی تو مل ہی جائیگی آفریدی صاحب
اچھا فرید الدین صاحب اب میں بھی چلتا ہوں یہ کہہ کر آفریدی صاحب بھی بینک سے چلے گئے
ایک تو کام مکمل نا ہوا اور سب دفتر سے جارہے ہے
مس رضیہ میں کیا جواب دونگا رحمان صاحب کو؟
سر آپ پریشان نا ہو آج بارش کی وجہ سے موسم خراب ہے اس لئے سب جلدی جارہے ہیں
آپ مجھے مت سمجھائیں مس رضیہ
فرید الدین صاحب نے غصے میں کہا
بارش رک نہیں رہی اور 3 بج چکے ہیں گل خان نے محبوب چاچا سے کہا
اور کام بھی مکمل نہیں ہوا
محبوب چاچا نے کہا گل خان تم کیوں فکر کر رہے ہو ابھی تو اسٹمنٹ بھی نہیں بنی تو کیسے سٹیٹ بینک میں جمع کروگے ؟ گل خان
اچانک عبداللہ آئے اور بہت میٹھے لہجے میں فرید الدین صاحب سے کہا کہ سر میں نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے اور رحمان صاحب کی میز پر فائل رکھ دی ہے آپ اس پر دستخط کر دیں اور مہربانی کرکے مجھے چھٹی دے دیں تاکہ میں بھی گھر جاو
یہ سن کر فرید صاحب کا لہجہ تھوڑا نرم ہوا اور کہا عبداللہ میں تو چھٹی دے دونگا مگر سب لوگ کیا کہے گے؟
اچھا تم چلے جاو مگر میرا نام مت لینا
یہ سب باتیں اختر محبوب چچا اور گل خان غور سے سن رہے تھے
اختر نے کہا کرو خوشامد کرو خوشامد عبداللہ صاحب
عبداللہ مس رضیہ کے ٹیبل کے پاس آئے اور کہا مس رضیہ آپ میرے ساتھ چلیں میں آپکو گھر چھوڑ دونگا اپنی موٹر سائیکل پر
بہت شکریہ عبداللہ سر
آپ جائیں مجھے کوئی نا کوئی سواری مل جائیگی
اور عبداللہ بھی چلے گئے
اسکے بعد صدیقی صاحب بھی دفتر سے چلے گئے
اب صرف فرید الدین صاحب اور مس رضیہ رہ گئے تھے اور بارش نے طوفانی شکل اختیار کر لی تھی
 رحمان صاحب تو آج دفتر میں بیٹھ کر سارے کام مکمل کرنا چاہتے تھے مگر افسوس آج ہم لوگ وقت پر اسٹمنٹ تیار نا کر سکے
فرید الدین صاحب مسلسل افسوس کر رہے تھے اور اوپر سے صدیقی صاحب بھی بغیر اجازت کے چلے گئے اختر نے کہا فرید صاحب باہر تو منہ زور بارش ہے اور کئی گھروں کی چھتیں تک اڑ گئی ہے اور سیلاب سے سڑکیں تالاب بن چکی ہے سب کی گاڑیاں پانی میں خراب ہو چکی ہیں اور لوگ جگہ جگہ پھنسے ہوئے ہیں کئی بچے تو ڈوب رہے تھے مگر لوگوں نے بچا لیا
یہ سننا تھا کہ گل خان کو اپنے بچوں کی یاد آ گئی کہ پتہ نہیں انکا کیا حال ہوگا ؟
اختر محبوب اور گل خان تینوں فرید الدین صاحب کے پاس گئے اور کہا فرید صاحب یہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہے سارے لوگ تو جا چکے ہیں اور آپ ہمیں کیوں چھٹی نہیں دیتے ؟
محبوب نے کہا بادشاہ افسر کا فرض ہے کہ ہر ایک کو ایک نظر سے دیکھیں مگر آپ زیادتی کر رہے ہیں
ہم نے بڑی نوکری کی ہے
کئی افسروں کو دیکھا ہے مگر آپ کر رہے ہیں زیادتی
اختر نے کہا ہم کو ہمارا جرم بتایا جائے
سب لوگ چلے گئے کیا ہمارا گھر بار نہیں ہے بال بچے نہیں ہیں
جسٹ شٹ آپ کوئی یہاں سے نہیں ہلے گا ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا فرید الدین صاحب نے للکار کر کہا
کاونٹر پر جاو یہاں کیوں آئے ہو
محبوب اور گل خان کاونٹر پر جانے لگے تو اختر نے محبوب کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا رکو محبوب بھائی آج فیصلہ ہو ہی جائے جب بات کھل ہی چکی ہے سب لوگ کام ختم کئے بغیر گھر چلے گئے کیا ان میں سرخاب کے پر لگے ہیں اور باہر قیامت کی بارش ہو رہی ہے ہر سڑک ندی بن چکی ہے
اور ہم یہاں بیٹھ کر مکھیاں مار رہے ہیں
کیا بکواس کر رہے ہو اختر ان سب سے پوچھ گچھ ہو گی تم کیا سمجھتے ہو میں انکی کمپلین نہیں کرونگا
یہ بینک ہے
اختر نے کہا اگر آپ اسے بینک سمجھتے تو اپنے خوشامدی چمچے عبداللہ کو یوں چھٹی نا دیتے
جسٹ شٹ آپ
اور فرید الدین صاحب بھی غصے سے اٹھ کر بینک سے چلے گئے
اس پر اختر نے کہا لو یہ بھی چلے گئے تو میں بھی جاتا ہوں کونسا یہ میرا ذاتی بینک ہے اور اختر بھی بینک سے چلا گیا
محبوب اور گل خان ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور محبوب بندوق کندھے پر رکھ کر بینک کی گیٹ پر چلے گئے
گل خان میز پر پڑے چابیوں کے گھچے کو دیکھ رہے تھے اور میز سے وہ چابیاں اٹھا لی
مس رضیہ گل خان کو دیکھ رہی تھی اچانک بینک میں گھپ اندھیرا ہو گیا اور بجلی بھی چلی گئی
ادھر کوئی موم بتی ہے محبوب صاحب؟
جی وہاں سٹور روم میں ہے
گل خان موم بتی کو مس رضیہ کی میز پر رکھ دی اور روشنی ہو گئی
گل خان نے کہا مس رضیہ آپ بھی چلی جائیں ابھی تھوڑی بارش تھم چکی ہے آپ جائیں ابھی شام کا اندھیرا ہو جائے گا تو مشکل ہو جائیگی یہ سن کر مس رضیہ بھی دفتر سے چلی گئی
پھر سے بارش تیز ہوئی
تو گل خان ڈر کیا کہ اسکی جھونپڑی گر چکی ہے اور بچے سیلاب میں بہہ رہے ہے
گل خان انہیں خیالوں میں تھا کہ فون کی گھنٹی بجتی ہے ٹرن ٹرن ٹرن
گل خان نے فون اٹھایا
جی رحمان صاحب
نہیں فرید الدین صاحب تو نہیں ہے
سب لوگ چلے گئے ہیں صرف میں اور محبوب بینک میں ہیں
چابی میرے پاس ہے اور میں آپکا انتظار کر رہا ہوں
رحمان صاحب آپ کہاں ہے
میں ابھی تک اپنے بیوی بچوں کو ڈھونڈھ رہا ہوں نہیں ملے تم چابی محبوب کو دو اور فورا بینک سے گھر جاو اپنے بچوں کی خبر لو
خدا کے لئے جاو گل خان اپنے گھر کی خبر لو شہر میں قیامت آچکی ہے
گل خان نے فون ریسور رکھ دیا اور محبوب سے کہا صاحب جی کے بیوی بچے ابھی تک نہیں ملے
خدا رحم کریں گل خان
اچھا یہ چابی لو اور میں بھی جارہا ہوں محبوب بھائی دعا کرنا
میرا گھر پانی میں بہہ نا گیا ہو
اور گل خان بھی چلے گئے
محبوب نے بینک کا دروازہ اندر سے بند کر دیا اور تالہ لگا دیا اور بینک کے اندر ہی اسکو سونا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *