Jobs  |   19 September 2024

نوجوان نسل کی بہتری ممکن کیسے ؟ میرے ذاتی  خیالات پہ مبنی تحریر  تحریر : عالمہ فاطمہ فضل  سرپرست اعلیٰ دالمومنات ، موٹیوشنل اسپیکر 

| 9 Jan 2024  

میرے ادارے دارالمومنات  کا آن لائن آغاز 2022 میں کیا تھا عملی طور پر ادارے کو چلانے کا ارادہ ہے  انشاء اللہ تا کہ ادارے کو باقاعدہ کسی عمارت میں منتقل کیا جائے کلاسز فی الحال آن لائن چل رہی ہیں میں نے جو ادارہ یہ بنایا ہے اس کے بنانے کا مقصد میرا صرف ایک ہی مقصد ہے ادارے کو بنانے کے حوالے سے باقی سب چیزوں کو چھوڑ کہ مجھے جنریشن کے لیئے آنے والی نسلوں کے لیے چاہے مجھ سے ایک ہو پائے یا ہزاروں ہوں مجھے مائیں تیار کرنی ہیں ایسی مائیں جو بچوں کو باقاعدہ طور پر بیٹا ہو یا بیٹی ہو اس کا حق باقاعدہ طور پر اس کو دینا مذہبی طور پر اخلاقی طور پر ایک ماں کا جو کردار ہوتا ہے مطلب وہ آج کل کی ماؤں والا حساب کتاب نہ ہو کپڑے جوتے ان چیزوں سے باہر ہی نہیں نکل پا رہی ہیں ، اور ان کو اس چیز کا پتہ ہی نہیں ہے کہ

بچوں کو وقت تربیت تعلیم اور تربیت ایک اہم عنصر ہے وہ تربیت جب تک ماں کو نہیں ملے گی بچوں کو تو مل ہی نہیں سکتی میرے ادارے کا بنیادی مقصد انشاء اللہ

جو میں اللہ تعالیٰ کے دین کی رو سے

جتنا میں سمجھتی ہوں اتنا میں اپنے اسٹوڈنٹس میں فی میلز میں منتقل کرنے کی کوشش کروں گی

میرے  ادارے میں اس وقت الحمدللہ 60,70 طالب علم فی میلز اور میلز وہ کلاسز میں شرکت کرتے ہیں اور تربیت حاصل باقاعدگی سے کرتے ہیں

اور تقریباً جو قرآن سے اور احادیث سے جتنا میں سمجھتی ہوں اس بات کو کہ میں اسٹوڈنٹس کو کس چیز کی ضرورت ہے ایک اچھا مرد معاشرے کے لیئے کیسے ہو سکتا ہے

اور عورت معاشرے کے لیئے کیسے اچھی ہو سکتی ہے جب وہ مکمل طور پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی پیروری کریں تو وہ تعلیم فی الحال میں اتنے طالب علموں کو منتقل کر رہی ہوں اور جہاں تک میری فیملی اور عزیز و اقارب کا جہاں تک خیال ہے تو وہ تقریباً سارے ہی Supportive ہیں اور میری سپورٹ میں بڑے اہم جو لوگ کردار ادا کر رہے ہیں وہ میرے والد اور میرے شوہر ہیں جنھوں نے مجھے Properly  سپورٹ کیا ہے اسلام کے مطابق جو بھی میں کرنا چاہوں جیسے بھی کرنا چاہوں

پاکستان میں میری تعلیم اسکولنگ میری اے پی ایس اور فضائیہ کے اسکولز سے ہے اور اس کے بعد میرا اتفاق جامعہ جانے کا ہو گیا تو میں نے دس سال جامعہ میں گزارے ہیں میں وفاقی المدارس العربیہ سے فارغ ہوں

عالمہ ہوں اور اب انشاء اللہ میرا ارادہ مدینہ سے ایم ایس کی ڈگری لینے کا ہے جو کے انشاء اللہ تعالیٰ جلد ہی امید ہے شروع ہو جائے گی

میں نے یہ چیز بار ہا اسٹوڈنٹس کو بھی سمجھائی ہے اور میں پھر یہ چیز کوٹ کی صورت میں بتاؤں گی کہ ہم ہمیشہ اپنے اندر تلاش کریں

کہ آپ کو کس چیز میں اللہ تعالیٰ نے مہارت دی ہے اہلیت دی ہے کہ آپ وہ کام بہت ہی خوبصورت کر سکیں کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے God Gifted ہوتی ہیں ہر انسان کے اندر کسی انسان کو اللہ نے رائیٹر بہت اچھا بنایا ہے کسی انسان کو اللہ تعالیٰ نے شاعر بہت اچھا بنایا ہے کچھ پڑھتے بہت اچھا ہیں کچھ بولتے بہت اچھا ہیں تو میرا ایک چونکہ یہ وراثتی  بھی تھا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ نعمت حاصل تھی میں بولنے میں مہارت رکھتی تھی اور الفاظ کا چناؤ اچھا کر پاتی تھی اپنے حساب سے اور میں

پھر ایک اچھا پیغام لوگوں تک پہنچا پاتی تھی تو جب مجھے یہ چیز معلوم ہوئی کہ میں بول سکتی ہوں

اور میری آواز بہت سے لوگوں کے لیئے باعث رحمت و باعث ہدایت بن سکتی ہے تو پھر کیوں ناں اپنی آواز جو استعمال کیا جائے لوگوں کے لیئے پھر یوں ہی زندگی میں چلتے پھرتے استاد آ گئے  اور انھوں نے پھر مجھے یہ چیز Realize کروائی کہ آپ کے پاس جو ٹیلنٹ ہے بطور اسپیکر جو بولنے کے لیئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے دس سال تک آپ کو دین کی تعلیم کے لیئے بھی رکھا ہے میں نے وہ بھی حاصل کی ہے پھر اس سے زیادہ بہتر اور موقع  ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ بولیں دنیا کے لیئے اور آپ دین کو لیکر بات کریں پھر میں نے یہ فیصلہ لیا تھا کہ مجھے آج کے دور میں سوشل میڈیا سے زیادہ بڑا پلیٹ فارم اور کوئی ہے ہی نہیں

آج کل کے دور میں زیادہ تر جو لڑکیاں ہیں یا لڑکے ہیں مجھے زیادہ تر ینگ جنریشن ہی کونٹکٹ کرتی ہے

رابطہ کرتی ہے اور وہ مجھے Definitely  انسپائریشن لیتے ہیں رابطہ کرتے ہیں اور اکثریت کا جو مسئلہ میرے سامنے آ رہا ہے دنیا بھر سے میاں بیوی کے بہت سارے مسائل ہیں ازدواجی مسائل کے بعد جس چیز نے سب سے زیادہ آگ پکڑی ہوئی ہے وہ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا کلچر اور اس کی وجہ سے ہونے والی تباہی

کہیں لڑکیاں بریک اپ کی وجہ سے صدمے میں ہیں کہیں لڑکے اور پھر وہ صدمے کا حل مجھ سے پوچھتے ہیں کہ یہ صدمہ لگ گیا ہے علاج کیسے کریں تو کہنے کو یہ بیسک ایک ہی وجہ ہے کہ جب مائیں تربیت ہی ایسی دے کر جوان کریں گی کہ ان کو یہ چیز سمجھ میں نہ آئے کہ صحیح اور غلط میں فرق کیسے کریں گے تو بچے تو بے قصور ہیں بچے تو کھا پی ایسے تو جانور بھی بڑے ہو جاتے ہیں جس طریقے سے آج کل کی نسلیں بڑی ہو رہی ہیں تو تربیت کا تصور نہ ہونے کی وجہ سے نہ تو آج کل کی ینگ جنریشن کی ازدواجی زندگی ٹھیک ہے اور نہ ہی میرج سے پہلے وہ بیچلر میں اچھی زندگی گزار پا رہے ہیں  99 فیصد میرے پاس جو مسائل آتے ہیں وہ یہی ہوتے ہیں

میرے والد خاندان میں سب سے بڑے ہیں اور ننیال اور دھدیال میں پہلی پوتی اور پہلی نواسی ہوں اور میرے والد صاحب کا کردار ایسا تھا ہمیشہ تھا اور ماشاءاللہ سے یہ ان ہی سے سیکھنے کو ملا ہے کہ اگر ایک فیملی ہے اور اس فیملی میں چھ لوگ ہوں تو وہاں باپ کی موجودگی میں کسی بھی باہر کے بندے کو یعنی جو اس چار دیواری سے باہر ہے وہ چاہے چاچو ہوں ماموں ہوں کوئی بھی ہو اس کو کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ اس گھر کے افراد کے بارے میں کبھی بھی کوئی بھی رائے دے غیر ضروری میرے والد صاحب نے کبھی کسی کو اجازت ہی نہیں دی کہ کوئی ہمارے فیملی کے اندر کے Matter کو ڈسکس کرے اور اس کے لیئے مجھے کبھی خاندان کے لوگوں کے بارے میں نہ سوچنا پڑا ہے اور نہ ہی کبھی ان کو اتنی ہمت ہوئی ہے کہ وہ میرے والد صاحب کے سامنے کھڑے ہوکے

ان کی بیٹی کو ٹارگٹ کر سکیں

کسی بھی Bad Manners  پہ

میرے والد صاحب بڑے تھے ساری فیملی کے افراد ان کی عزت کرتے تھے

میرا ادارہ آن لائن بھی چل رہا ہے اور کچھ جو قریب قریب کے طالب علم ہیں ان کے لیئے فزیکل بھی ہے جو میرے سورس میں جتنی بھی لڑکیاں ہیں جو یونیورسٹیز میں پڑھتی ہیں لیکن ان کے Supportive  نہیں ہیں

فیملی نہیں ہیں ان کو کوئی پڑھانے والا تو وہ مجھ سے رابطہ کرتی ہیں ان کے لیئے جو مجھ سے بن پڑتا ہے

وہ میں کرتی ہوں یونیورسٹیز کی فیس وغیرہ ہاسٹل کی فیس وغیرہ

یہ چیزیں اسٹوڈنٹس کے لیئے میں ارینج کرتی ہوں باقی میرے پاس جو بچیاں پڑھنے کے لیئے آتی ہیں وہ قریب قریب کی ہیں کیونکہ میں نے فی الحال اتنی ہی جگہ ہائیر کی ہوئی ہے جس میں مختصراً جو ہے بچیاں پڑھ پا رہی ہیں زیادہ تعداد کے لیئے مجھے ایک بڑی جگہ کی ضرورت ہے اور Definitely  وہ مستقبل میں پلان ہے

اس کے لیئے سوائے افسوس کے کیا کہا جا سکتا ہے لیکن یہ حقیقت کہ انسان دنیا کی عیاشی میں جتنا مرضی وقت گزار لے الٹیمیٹ آخر میں وہ ان سب چیزوں سے اکتاتا ہے

اور اس کو انسان کی ایک فطرت ہے ناں کہ انسان ، انسان خالی میٹریل کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا

انسان کو روحانی طور پر بھی کچھ خوراک چاہیئے ہوتی ہے اس کے بعد بندی ڈپریشن Anxiety  مختلف قسم کی بیماریاں خود کشی کے خیالات آنا دنیا سے دل بھر جانا بے زاری اپنی ذات سے بے زاری یہ چیزیں تب آتی ہیں جب روحانی خوراک نہیں پہنچ رہی ہوتی فطرت میں اگر اچھائی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ پلٹ ہی دیتے ہیں انسان میں باقی نہ ہو تو افسوس کے سوا کچھ اور کہا نہیں جا سکتا

میسج یہی کہ نوجوانوں کہ آپ جس راستے پر چل رہے ہیں وہ راستہ At the end  ایسی جگہ پر چھوڑ کے آئے گا جہاں آپ یہ پلان کریں گے کہ میں واپس ہونا چاہتا ہوں میں ٹھیک ہونا چاہتا ہوں جیسے انسان سوچتا ہے یہ آج گناہ کر لوں کل توبہ کر لوں گا لیکن جو انسان عادتاً گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے اس کو توبہ کی توفیق ملتی ہی نہیں ہے توبہ کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ چھین لے گا اور خدا نخواستہ  فحاشی کی حالت میں آپ موت ہو جاتی ہے تو آپ اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دکھائیں گے ٹک ٹاک پر عورتیں لڑکے لڑکیاں جو یہ ناچ گانا کر رہے ہیں یہ کل اپنی اولاد کو کیا میسج دیں گے یہ ہم کس قسم کے مسلمان ہیں

یہاں قصور بچوں کے نکاح نہ کرنے کا ماں باپ کا ہی ہے ہمارے ہاں یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آتی بچے ہوں یا بچیاں وہ تیرہ چودہ سال کی عمر میں بالغ ہو جاتے ہیں اور اس عمر سے لیکر ایک بھوکا جانور پالتے رہنا اور وہ بھوکا جانور جس کو آپ اس کی خوراک نہیں پہنچا رہے ہوں اور آپ اس کو دس سال پندرہ سال پچیس ستائیس تیس سال اتنے ٹائم تک آپ اپنے اندر بھوک کو پال کر رکھتے ہیں

تو پھر یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بھوکے انسان کو کہیں کوئی چیز نظر آئے اور وہ اس پہ لپک کے نہ گرے تو شادی نہیں ہے سوسائٹی میں شادی نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں گندگی ہے اگر اسلام نے نکاح کا سسٹم رکھا ہے تو اسی لیئے رکھا ہے کہ نکاح ہوگا تو زنا نہیں ہوگا

زنا وہی پہ ہوتا ہے جہاں نکاح نہیں ہوتا ہمارے معاشرے میں تقریباً نکاح کو ایک عادی پونی عمر تو آج کل ایک عام سی بات ہے شادی نہ کرنا تو اس میں سب سے پہلے قصور وار ماں باپ ہیں اور پھر وہ نسل بالغ ہو جانے کے بعد بھی اپنی عقل کو استعمال نہ کرے نہ اپنے پیدا کرنے والے کی طرف توجہ دے میں دنیا میں کیوں آیا نہ وہ یہ پلان کرے کہ میں اپنے بھیجے ہوئے کے مطابق زندگی گزارنی ہے کہ نہیں ماں باپ ایک عمر آپ کی تربیت کرتے ہیں اس کے بعد آپ کو اپنی عقل خود استعمال کرنا پڑتی ہے اور اللہ تلاش کرنا پڑتا ہے 15,16 سال تک کیا ہوا کام ماں باپ کے ذمے آپ ڈال سکتے ہیں انھوں نے غلط کیا یا صحیح مگر اس کے بعد آپ نے خدا تلاش نہ کیا آپ قصور ہیں پھر پندرہ سولہ سترہ سال کے بعد لڑکیاں لڑکے اس بات کو نہیں سمجھتے وہ خود اس بات کے ذمہ دار ہیں آپ اس راستے پر چل پڑیں آپ خود اس راستے سے اکتا جائیں گے

 

یہ کورسز سارے مختلف ہیں اور مختلف طریقے سے ڈیزائن کیئے گئے ہیں اور اس میں کچھ کے لیئے چھ مہینے کا وقت ہوتا ہے کچھ ہیں دو سال میں کچھ تین سال میں اور یہ اس چیز پہ بھی Depend  کرتا ہے

اسٹوڈنٹس کتنی جلدی چیز کو Cover  کرتے ہیں کیونکہ میرا ایسا ارادہ نہیں ہے کہ دو سال میں قرآن ختم کر دیا جائے تا کہ جان چھوٹ جائے دو سال کی بجائے اگر چار سال بھی قرآن پڑھا جائے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے بس کہنے کا مقصد اتنا ہونا چاہیئے کہ روزانہ ایک رکوع یا آدھا رکوع بھی پڑھا جا رہا ہو وہ Properly  جو ہے وہ Deliver  ہو رہا ہو یہ نہیں کہ میں پڑھ کے نکل رہی ہوں اور سامنے والے ایک کان سے ڈالتے ہیں دوسرے سے باہر نکالتے ہیں اس طرح سے میرے پڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے جیسے نارمل جامعہ وغیرہ میں پڑھایا جاتا ہے کورس ختم کروانا کسی طریقے سے

جیسے اسٹوڈنٹس لیتے ہیں سبق کو اسی طریقے سے میں ان کو ڈیلیور کرتی ہوں تا کہ وہ اس پر عمل کر سکیں

رٹا نہیں لگوانا طالب علموں کو میرا مقصد سمجھنا ہے

معاوضہ تو میرے اسٹوڈنٹس کا سمپل ہے جو بچے یتیم ہیں کفیل جن کا کوئی نہیں ہے ان کے لیئے کچھ بھی نہیں ہے ان کے لیئے مکمل تعلیم مفت ہے اور جو صاحب استطاعت بچے ہیں ان کے لیئے دو ہزار ، تین ہزار فیس پے کریں اپنے کورس کے حساب سے یہ لازمی ہے اس وجہ سے جو مخیر یا صاحب استطاعت لوگ ہوتے ہیں ان کو اس چیز پہ لگانا ضروری ہوتا ہے کہ وہ خرچ کریں اور ان کو محسوس ہو کہ آپ ادارے کو دے رہے ہیں وہاں سے کچھ حاصل بھی کر رہے ہیں

مجھے مختلف ممالک سے ڈونرز ڈونیشن بھیجتے ہیں اور وہ ان ہی لوگوں کے لیئے بھیجتے ہیں جو بچیاں وغیرہ میرے ساتھ منسلک ہیں جن کے میں مالی اخراجات اٹھا رہی ہوں تو اس کے لیئے مجھے ڈونیشنز آتی ہیں کبھی کم ہو جاتے ہیں کبھی زیادہ ہو جاتے ہیں ڈونیشنز کبھی آتی بھی نہیں ہے حالات پہ منحصر ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا کام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کس چیز کو کیسے ارینج کروا دے میری اپنی طرف سے پراپر کوشش ہوتی ہے کہ تمام اخراجات

اچھے طریقے سے پورے ہو جائیں کچھ وقت ہو جاتا ہے اوپر نیچے مگر الحمدللہ چیزیں مینج ہو رہی ہیں

 

مسلم ممالک کا فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے معاملے کر خاموش ہونا ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان اس طرح کے ہو گئے ہیں جن کو دیکھ کے شرمائیں یہود مسلمانوں کی یہ حالت ہے

عرب سب سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے   پہلے سے پیشگوئی دے دی تھی کہ عرب کے لیئے ہلاکت ہے عربی ایک وقت آئے گا سب سے زیادہ عیاش قوم ہوں گے اور وہ ہیں آج وہ دنیا کی عیاشیوں میں مست ہیں ان کو کیا لینا دینا جنگ سے کیا فلسطین سے مسلم ممالک خود ایک طرح سے یہودیوں جے ایجنٹس کے پپٹس ہیں یہ کیسے جنگ کریں گے آپ کا ایک مسلمان بندہ اگر کافر مارتا ہے تو آپ کے اوپر لازم ہے آپ جنگ کریں

قرآن میں واضح حکم ہے

اگر وہ تم سے جنگ کریں واپس لڑو ان سے

میری نظر میں کشمیر و فلسطین کا حل پہلی سطح پر تو یہی ہے کہ اگر اس کا بین الاقوامی سطح پر کوئی ایسا راستہ نکل سکے کہ یہ دونوں جگہیں Properly  آزاد ہوں لوگ اپنی مرضی سے آزادی  جی سکیں

جیسے باقی دنیا جی رہی ہے اگر مسئلہ اس سے حل نہیں ہوتا مسئلہ کافر اور مسلم کا ہے تو لازم ہے مسلمانوں پر کہ وہ کافروں سے جنگ کریں

کسی بھی گھر جا بجٹ و نظام خراب تب ہوتا ہے جب اس گھر کا سربراہ وہ نا اہل آدمی ہوتا ہے

اسے یہ سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ وہ اپنے بجٹ میں چیزوں کو مینج کیسے کرے ارینج کیسے کرے پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو لاوارث ہے جس کا کوئی صحیح معنوں میں باپ نہیں ہے اگر کوئی باپ آنے کی کوشش کرتا ہے تو الحمدللہ  بہت سے ایسے نا معلوم لوگ ہیں جو اس کو بیٹھنے نہیں دیتے سیٹ پہ جو اکانومی کو ٹھیک کر سکے

جس کی بہت بڑی مثال عمران خان ہیں کہ انھوں نے غریبوں کا ایک Properly  ایک نظام شروع کیا تھا جس میں غریبوں کو سپورٹ ہو غریب بھوکے نہ سوئیں غریبوں کے کھانے پینے رہنے کے انتظامات مطلب ایک نالج والا لیڈر جس کی سوچ تھی اپنے ملک کو آگے لیکر جانے والی

ہمارے سروں پر جو فرعون بیٹھے ہوئے ہیں نواز شریف شہباز شریف جیسے گندے خاندان یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ ان حکومتوں سے نواز خاندان سے یا زرداری خاندان سے بندہ یہ توقع رکھے کہ یہ ہماری اکانومی کے لیئے کچھ کریں گے یہ ممکن ہی نہیں ہے سوال ہی نہیں پیدا ہوگا پہلے تو بندہ اللہ سے دعا مانگے کہ اللہ فرعونوں پہ اپنا ظلم نازل کرے

اور اللہ ان کو نست و نابود کرے اور کوئی ایسا لیڈر ملک میں ا سکے کہ جو غریبوں کی پرواہ کرتا ہوں باقی جہاں غربت کا سوال ہے

غربت ایسے ملکوں سے کبھی بھی ختم نہیں ہوتی جہاں پہ کوئی وارث ہی نہ ہو آپ کا جہاں آپ کے ملک کا کوئی سربراہ ہی نہ ہو باقی عوام سے یہی درخواست ہے کہ جن کے لیئے ممکن ہے کہ وہ ملک چھوڑ کے جا سکیں تو باہر جائیں جیسے بھی ممکن ہوتا ہے

 

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *